آج گوادر میں اس بڑے اجتماع نے ثابت کیا کہ بلوچ اپنے حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

1499

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں حکومتی کریک ڈاؤں کے باوجود ہونے والے ‘بلوچ راجی مچی ‘ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ایک اعلامیے میں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی، فوجی آپریشن کے خاتمے اور استحصالی منصوبے روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار ملک کے دیگر حصوں تک پھیلایا جائے گا۔ بلوچ قومی اجتماع کے موقع پر گوادر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو کا سماں رہا اور شہر کو چاروں اطراف سے سکیورٹی فورسز نے گھیرے رکھا۔

قومی اجتماع میں شرکت کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قائدین پہلے ہی گوادر پہنچ گئے تھے۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچ قومی تحریک کو ثبوتاژ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پراتر آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، “احتجاج ہمارا ایک آئینی حق ہے۔ ہم انصاف کے لیے نکلے ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔”

ڈوئچ ویلے نے رپورٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں۔ “آج گوادر میں اس بڑے اجتماع نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ اپنے حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے گوادر میں سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر بلوچ قومی اجتماع کو ناکام بنانے کی کوشش کی جو کہ کامیاب نہ ہوسکی۔ ماہ رنگ کے بقول، “بلوچ قومی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان میں جبر و بربریت کا خاتمہ کیا جائے۔ “

مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حقیقی قیادت کو نظرانداز کر کے عوامی مفاد کے برعکس من پسند غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں جس پر وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ مقررین نے مزید کہا، “حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا جارہا ہے مگرمتاثرین کو کوئی انصاف نہیں مل رہا۔”

گوادر میں قومی اجتماع میں قافلوں کی شکل میں ہزاروں دیگر لوگ بھی شرکت کرنا چاہتے تھے مگر انہیں فورسز کی طرف سے مختلف شاہراہوں پر زبردستی روک دیا گیا۔ آج بلوچستان بھر میں تمام شاہراہیں احتجاج کی وجہ سے بند رہیں۔