افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو – (تیسرا قسط) – وش دل بلوچ

168

افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو
(تیسرا قسط)

تحریر: وش دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج بہت لمبی مسافت کے بعد جب اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر تھکان دور کرنے کیلئے چائے دان آگ پر چڑھا کر چائے دان سے اُٹھتی ہوئی بھاپ نے دل کو گرماہٹ دی تو گزشتہ ہر لمحے کا گمان دماغ میں گردش کرنا شروع کردیا، کانٹے دار، پتھریلی، غیر ہموار، ڈھلوانوں اور چٹانوں سے آنے جانے والے راستوں پر جب گزر ہو تو تھکان سے چور بدن کو اُس وقت صرف ایک پیالہ سلیمانی چائے کی طلب سب سے زیادہ ہوتی ہے، ایک وقت تھا مجھے چائے سے خاص لگاؤ نہیں تھا دن میں ایک پیالہ چائے پینا میرا معمول تھا لیکن اب سیاہ رنگ کے چائے دانی سے اتنی لگاؤ ہیکہ نقل و حمل میں سب سے پہلے چائے دان و پیالہ کا ذکر ہوتا ہے چینی و چائے پتی کا بعد میں، کسی نے کیا خوب کہا ہےکہ “چائے میں چاہت ہے” لیکن یہاں یہ چاہت کئی گزرے ادوار کو اپنے دامن میں سماکر لے آتی ہے، آج کے سفر میں جس طرح راستے کی نشیب و فراز دیکھا تو اپنی زیست کی عکاسی پایا غلامی کے اندھیر نگری نگاہوں میں گھومنے لگیں اور مژگان پر ایک آس باقی رہ گیا کہ کوئی تو تیار ہوئی ہے جو گزشتہ ہر لمحے کو سننے کیلئے تیار ہے ہر پل کی افسردگی کو پرونے کیلئے تیار ہے مکالمہ ہونا چاہیئے، اب مجھے اپنے زیست کے عنوان سے زیادہ اُس لڑکی کے مقدمہ میں دلچسپی ہو رہا ہے جو عظیم فلسفیوں کے عدالت میں چل رہا ہے، لیکن شرط بھی پوری کرنی ہے پہلے مجھے اپنے آپ بیتی اسے سنانا ہے پھر جاکر وہ مقدمہ سامنے رکھ دے گی، چلو جستجو الم پیش کرنے دماغ میں حاضری لگاتے ہیں اس الگ تھلگ بستی کی رونق پوری کائنات سے الگ ہے اس کے ہر پہلو میں ایک الگ داستاں ہے ہر ابھرے سویرے میں ایک نئی کہانی ہے، ہر دو پہر میں نئے چہرے نظر آتے ہیں کہیں پر حسن کی بازار ہے تو کہیں پر جیل خانہ ہے، ایک طرف جشن ہے تو دوسری جانب ماتم ہے ایک جگہ آزادی ہے تو دوسری مقام پر غلامی کا بےلگام رواں ادوار ہے.

آج جب دماغ میں پہلا قدم رکھا تو سب اُٹھ کھڑے ہوئے سوائے اُن کے جو نڈھال تھے لیکن اُن کے ہاتھ اوپر تھے جیسے اشارہ کر رہے تھے کہ ہم احترام کے اس لمحے میں ان سب کے برابر میں آپ کے سامنے کھڑے ہیں، میں آگے بڑھا خوش آمد خوش آمد کی گونج ہر جانب تھا جیسے اس بار میں ان سب کا لیڈر بن کر آیا ہوں، میں جاکر کرسی پر بیٹھا تو ساتھ ہی سب کے سب بیٹھ گئیں انسان بھی خدا کا عجیب مخلوق ہے جب کوئی حد سے زیادہ اُس کی عزت کرے محترم نگاہوں سے اسے دیکھے تو غرور اس کے آنگن میں اپنا ڈیرہ جما دیتا ہے اگر کوئی اس کو عزت و احترام سے نہ دیکھے تو پریشان ہوجاتا ہیکہ ایسا کیا کمی کردی جو سماج میں اپنا رتبہ کھو بیٹھا، بیشک انسان کسی بھی حالت میں خوش نہیں رہ سکتا، لیکن آج کا احترام جو مجھے میرے انٹری میں ملا ہے یہ میرے لئے باعثِ فکر ہے غرور اپنی جگہ میں اپنا حواس کھو رہا تھا کہ رہشون صفت عنوانوں میں سے ایک نے مخاطب ہوکر کہنے لگا ہم سب آپ دونوں کے مکالمے کیلئے بڑے شدت سے منتظر تھے آج آپ آئے تو ہمیں اسی شدت نے آپ کے آنے پر اٹھ کھڑا کردیا کہ چوبیس سو سال پہلے سقراط کے صحبت میں رہے تھے اب کچھ نیا سُن لینگے اسی صدی کے حالات سے واقف ہونگے خاص کر اکیسویں صدی کے ایک غلام کے زندگی کو ہم سُن لینگے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان چوبیس سو سال کا سفر طے کرکے انسان میں کونسی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس موجودہ صدی میں ایک شخص کس طرح غلام بنایا جاسکتا ہے لہذا ہمیں بہت دلچسپی ہے آپ دونوں کے مکالمے میں شاید اُس عنوان لڑکی کی بھی مقدمہ ہمیں سننے کا موقع ملے اور یہ مقدمہ بھی اپنے اختتام کو پہنچے تاکہ ہم آگے کی جانب روانہ ہو جائیں، میں نے اپنے ہاتھ کو چہرے سے ہٹاکر دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر میز پر رکھا اور کہہ دیا، آپ سب جس شدت سے میرے آپ بیتی کو سننے کی طلبگار ہے شاید میں اس کو اس شدت سے بیان نہ کر پاؤں شاید آپ سب کے امیدوں پر میں پانی پھیر دوں شاید آپ مجھ سے مایوس ہوکر سقراط کے محفلوں سے بھی محروم ہو جائیں، خاص کر آپ رہشون صفت عنوانات مجھ سے نا امید ہوکر اپنے وقت کا ضیان مجھ پر لگاکر ایک اور مقدمہ کھڑی کرکے مجھے اُن ہستیوں کے آگے گھسیٹنا شروع کردے، کئی برس مجھے عنوان ڈھونڈنے میں لگا ہے جبکہ مجھے اب ایک مقدمہ بھی آگے سننا ہے شاید اس کیلئے مجھے بہت طویل عمر کو جینا ہوگا اور شاید وہ زندگی نصیب نہ ہوں پھر؟

اُس نے مسکرایا اور کہہ دیا کہ کچھ وحی آپ کے زیست کے ہمیں پہلے سے پہنچ چکے ہیں آخر آپ پر گزرے تلخیاں ہمارے ہی دنیا کے کسی کونے میں پابند سلاسل ہیں آپ لاکھ چھپاؤ ہم سے کم از کم اس تعداد سے ڈھکا چھپا نہیں ہے البتہ ہم سب آپ سے ایک مکالمے کی صورت میں سننا چاہتے ہیں، چلو جیسا آپ سب چاہیں میں تو اب کافی زیادہ پُرامید ہوچکا کہ اب ایک نہیں بلکہ میرے گزشتہ ادوار کو آپ سب سننے کیلئے تیار  ہیں۔

میں نے نظریں اُدھر ادھر دوڑایا تو وہ عنوان لڑکی نے آواز دی، میں یہاں ہوں میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی اسٹیج کی جانب آرہی ہے اُس کے ہاتھ میں ایک موٹھی سی کتاب ہے اُس کے پہنچتے پہنچتے اُس کی کرسی بھی لگا دی گئی جیسے کسی مقابلہ شو کی تیاریاں ہو رہی ہے، بڑے آداب سے آکر اپنے نشست پر بیٹھ گئی اُس نے بیٹھتے ہی کہہ دیا کہ اپنا وہ بات بھولے تو نہیں ہو میں آپ کے آپ بیتی کو سننے یہاں اسٹیج پر آئی ہوں اور ساتھ میں یہ سب سننا چاہتے ہیں تاکہ آپ کو عنوان مل سکے اور میں اپنی مقدمہ سب کے سامنے رکھ دوں شاید کوئی حل نکل آئے ابھی تک تو مجھے تسلی بخش جواب اُن مفکر و فلاسفروں سے نہیں ملے ہے جنہیں لوگ ایتھنز کے دانشوروں و فلسفیوں کا بادشاہ سمجھتے ہیں، میں نے کہا میں بالکل نہیں بھولا ہوں میں آج آیا ہوں بھی اسی غرض سے بلکہ اب جب بھی آجاؤنگا یہی میرا مقصد ہوگا کہ گزشتہ گزرے ہر اُس لمحوں کو آپ کے سامنے رکھ دوں جس کی وجے سے مجھے آج تک عنوان نہ مل سکا، لیکن تم یہ بتاؤ آپ کے زانوں پر رکھی ہوئی یہ کتاب میں ایسی کیا قیمتی چیز ہے جسے آپ میز پر رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتی.؟ ایک دانشمندانہ انداز میں کہہ دیا اس کتاب میں کچھ نہیں ہے خالی ہے، میں نے پھر سے مخاطب ہوکر کہہ دیا خالی اور اتنی موٹھی کتاب کو یہاں لانے کی مقصد؟؟ کہنے لگی یہ وہ کتاب ہے جس میں اب ہمارا مکالمہ چھاپ دیا جائے گا، اس میں آپ کی آپ بیتی کی عنوان ڈھونڈنا اور میری مقدمہ اتاری جائے گی لہذا اب آپ کو اپنی گزرے زندگی پر چرچا کرنا چاہیئے مجھے اندازہ ہے یہ موٹی سی کتاب بھی شاید ناکافی ہوں، میں ہنس کر بول دیا میرا گزرا زندگی شاید اس کتاب کے چند پنہوں میں گم ہوجائیگی مجھے ایسا لگ رہا ہے آپ کا مقدمہ یہ کتاب بھر دےگا، وہ مسکائی اور کہہ دیا بس ایسا ہی سمجھ لو میں چوبیس سو سالوں سے یہ مقدمہ لڑ رہی ہوں ظاہر سی بات ہے یہ کتاب اس کیلئے ناکافی ہے، اتنے میں رہشون صفت عنوانوں سے ایک نے کہا آپ دونوں اپنی اپنی مقاصد کو سامنے لانا چاہوگی یا بس اسی طرح باہر کی دنیا میں بیٹھ کر باتیں کریں گے؟ ہم دونوں نے سب کو یہی کہہ کر مکالمہ شروع کردیا کہ ہم دونوں شاید غلامی اور مقدمات میں اس قدر بھٹکائے ہوئے ہیں کہ کبھی کبھی اپنے مقاصد سے بھی دور جاکر کسی خالی خولی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں لہذا آپ سب کے وقت کا ضیان ہم پر قرض ہے امید ہے ہمارا مکالمہ اس قرض کا چکتا ہو.

ہاں تو آپ اپنا آپ بیتی سناؤ تاکہ مکالمے کا دور شروع ہو عنوان لڑکی نے اپنا پیر دوسرے پیر پر رکھ کر ہاتھوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر میز پر رکھتے ہوئے کہہ دیا اور میں نے اپنا آپ بیتی سنانا شروع کردیا،
یہ سال 1994 لگ بھگ ساتواں مہینہ ہے میں کسی ایسے خاندان میں پیدا ہوا جو اپنے اس دیہی علاقے میں دوسروں کے نسبت زیادہ خوشحال و زندگی کے سہولیات سے آشنا اپنے قبیلے کے رہنمائی میں اپنا الگ پہچان رکھتے تھے، دس سے بارہ کمروں پر مشتمل ایک حویلی میں میرا والد اپنے باقی بھائیوں کے ساتھ مشترکہ خاندان کی صورت میں قیام کر رہا تھا، کہتے ہیکہ میرے پیدائش سے چند ماہ قبل اسی حویلی میں ایک لڑکی کی بھی جنم ہوئی تھی، جب میں اس دنیا میں ایک نوحہ کے ساتھ جنم لیا تو مجھے میرے چاچی نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر حویلی میں دوڑ لگاتی ہوئی کہنے لگی ” ای سالُم ئس کھٹاٹ” میں نے داماد جیت لیا یہ میرے زندگی کا وہ بلاعوض بلا قیمت حاصل تھا اور اُس لڑکی کے زندگی کا پہلا فیصلہ تھا جس سے وہ لابلد تھی نہ اُسے خبر تھی نہ مجھے پتا تھا، اُس لڑکی کی ماں کے منہ سے ادا کی ہوئی یہی ایک فقرے نے ہم دونوں کے رشتے طے کردیئے، ہے ناں عجیب؟ ہم دونوں ابھی تک عقل و شعور کی دنیا سے کہیں دور بہت چھوٹے تھے جبکہ ہمارے آنے والے زندگی کا فیصلہ ہمارے خاندان نے اپنی روایتی خوشی یا روایتی انداز جو چلتا آیا ہے کو اہمیت دی اور طے کردیا، اُس عنوان لڑکی نے آہ بھری اور کہہ دیا کہ ہائے قسمت لڑکیاں ہر دور میں بےبس اور لاچار کر دیئے گئیں ہیں لیکن یہاں مرد بھی اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں، میں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ غلامی کا شاید یہ دوسرا قدم تھا میرے لئے پہلا قدم تو یہ تھا کہ غلام سماج میں جنم لیا، شاید یہ غلامی کی دِین تھی کہ سوچ و روایات فطرت کے بالکل مقابل کھڑے روکاوٹ بنے ہوئے نظر آتے ہیں، ہمارے زندگی اور ہمارے مرضی و منشاء اُسی دن سے چھین لیا گیا، مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آیا کہ اس عمل کو اپنا نصیب کہوں، اتفاق کہوں، غلامی کہہ دوں یا پھر فرسودگی کی عروج تسلیم کر دوں، صرف اپنا نہیں بلکہ یہ رسم ہر جگہ خوشیوں کی روپ میں قہر برسا رہا تھا، آپ نے یہاں لفظ خوشی کہہ دیا ذرا وضاحت کروگے؟ اُس عنوان لڑکی نے مجھ سے مخاطب ہوکر یہ جاننا چاہا، میں نے کہا لفظ خوشی اس لئے کہا کہ میرے پیدائش پر جو خوشی کا موقع تھا اُسی میں ہی ہمارے زندگیوں کا فیصلہ طے ہوا تھا یہ اُن سب کیلئے تو خوشی تھی مگر ہم دونوں ابھی تک مہد میں یا ماں کے گود میں بچے ہی تھے جس کو ابھی تک دودھ پینے کا بھی ہنر نہیں آنکھیں ابھی تک کھلے ہی نہیں، کبھی کبھی بچوں کے جنم کے بعد ان کے آنکھوں کو بند دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس کرتا ہوں کہ غلام سماج میں آنکھیں کھولنے کا جو منظر ہے بہت ہی بھیانک ہے لیکن یہ اٹل حقیقت ہے جب سے میں نے اس غلام سماج میں آنکھیں کھولا ہے بغاوت کے بغیر مجھے کہیں پر بھی نجات کا دوسرا راہ نہیں ملا ہے.
میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں میرا یہ ناختم ہونے والا عادت بنا ہوا ہے میں اکثر اپنے موضع سے بھٹک جاتا ہوں کہیں دور کسی اور دنیا میں جاکر برسنے لگتا ہوں اور پھر سیرابی بھی وہاں نہیں ہوتی، خیر آگے بڑھتے ہیں، یہی وہ دور ہے جس میں شاید غلامی کی احساس لوگوں میں نہیں تھا، کہتے ہیکہ میرے پیدائش کے ٹھیک چھ دن بعد جب مجھے نام دیا گیا اُس رات بڑا دعوت کیا گیا علاقے کے کچھ معتبر لوگ بھی آئے اور آس پاس پڑوس کے لوگ بھی اس رسم میں شامل ہوئے لیکن آج تک مجھے یہ بات دیمک کی طرح چاٹ رہا ہیکہ غلامی کے زنجیروں میں رقص کرنا شاید اسے کہا جاتا ہے میرے بدقسمتی یا غلامی کی بدترین کیفیت تھا کہ مجھے ایک عرب نام دیا گیا، تو عرب نام سے آپ کو کیوں اعتراض؟ اُس عنوان لڑکی نے سوال کی، میں نے کہا میں ایک بلوچ ہوں میرا ایک تاریخی حیثیت ہے تاریخ کے ہر پنے پر بلوچ ایک مہذب قوم کی حثیت سے پرویا گیا ہے کیا بلوچی نام کی کمی تھی؟ کیا بلوچ کی وجود مٹ چکی تھی؟ کیا ہم دیسی بدو بن چکے تھے؟ کیا ہم عرب بادشاہوں سے متاثر تھیں؟ کیا وجہ تھی کہ میرےلئے بلوچ نام کا انتخاب نہیں ہوا؟ کیا بلوچستان میں عظیم کرداروں کے نام مجھ پر سوٹ ایبل نہیں تھے کیا بلوچی زبان کے سارے حروف پرتگیزیوں نے جلا دیئے تھے؟ کیا میرا مادری زبان اپنا وجود کھو چکا تھا؟ ایسے ہزاروں سوال صرف اسی ایک عمل پر ابھر رہے ہیں اس لئے کہ آج میں نے غلامی کو اس شدت سے محسوس کیا ہے کہ اس کی جڑوں تک جاکر انہیں کاٹ پھینکنے کا من کر رہا ہے اسی لئے بغاوت کے دور میں ہر پُرخار راستہ اور پتھر کا بنا تکیہ مجھے غلامی کے دور میں سجے ہوئے سیج اور پھولوں سے مزیں خواب گاہ سے زیادہ عزیز ہے کیونکہ تشخص جب باقی نہ رہے تم دنیا کیلئے محض ایک زوال پزیر حقیقت ہو، یہ میرے غلامی کا تیسرا قدم تھا ہر قدم پر ایک نئی اور مضبوط کڑی بن رہا تھا جو بتدریج زنجیروں کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا، ہر قدم پر نئی زنجیریں غلامی کو مضبوطی بخش رہے تھے، اپنے زیست کے ان پہلوؤں کو کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور دماغ کے ایڈیٹوریم سے جانے لگا، سب نے اُس لڑکی کے ساتھ آواز دیئے کہ آگے کہو کہاں جا رہے ہو میں نے ہاتھ اوپر کرکے اُن کے طرف دیکھے بغیر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گیا کہ منتظر رہنا آؤنگا واپس، آخر ہزاروں زنجیروں کو بھی تو توڑنے میں وقت چاہتا ہے اُن کی کہانی سنانے سے زہن، گلے، ہاتھ اور پیروں سے وہ اتر تو نہیں جائیں گے.

جاری ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔