خضدار سے جبری گمشدگی کے شکار حافظ طیب سمیت دیگر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی نکالی گئی-
بلوچستان کے ضلع خضدار سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے حافظ طیب اور دیگر جبری لاپتہ افراد کی طویل جبری گمشدگی و عدم بازیابی کے خلاف احتجاج مظاہرہ کیا گیا-
مظاہرے کی کال لاپتہ حافظ طیب کے اہلخانہ کی جانب سے دی گئی تھی جس کی حمایت بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کی اور متعدد دیگر جبری لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی اس احتجاجی مظاہرے میں شریک تھیں-
خضدار مظاہرین نے ایک ریلی نکالی جس شہر کے مختلف شاہراؤں پر گشت کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کی-
جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے حافظ طیب کے لواحقین کے مطابق حافظ طیب کو 4 مئی 2013 کو جھالاوان ہسپتال خضدار سے پاکستانی فورسز نے حراست بعد جبری طور پر لاپتہ کیا جو گیارہ سال گزرنے کے باوجود منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-
لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انھیں منظرعام پر لاکر منصفانہ ٹرائل کا موقع دیں اور رہا کیا جائے-
خضدار مظاہرین میں خضدار سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی خضدار کے رہنما و کارکنان بھی شریک تھے جنہوں نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا-
خضدار مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس شہر سے سالوں سے نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ابتک درجنوں افراد فورسز کے ہاتھوں حراست بعد سالوں سے لاپتہ ہیں جن کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے بلوچستان سمیت اسلام آباد تک اپنے احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں-
انہوں نے مطالبہ کیا جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کو فوری طور پر منظرعام پر لایا جائے اور حافظ طیب سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کو انکے حراست بارے آگاہ جائے-
مظاہرین نے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی اقوام سے درخواست کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے واقعات کی روک تھام میں مدد کریں اور جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے افراد کی بازیابی کو ممکن بناکر ریاست کو ان غیر قانونی عمل پر جوابدہ ٹھہرائیں-