آئی ایم حمل فتح، آغاز آپریشن زرپہازگ
تحریر: علی جان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ وقت 2013 ہےنویں کلاس کے کچھ مہینے گذرے تھے کہ میری ملاقات حمل سے ہوا۔ اس وقت میں اسے نہیں جانتا تھا، اس کے کزن کی وجہ سے ہماری ملاقات ہوئی۔ کچھ وقت کے بعد میں حمل کو ذاتی طور پر جاننے لگا، تنظیمی سوچ رکھنے کی وجہ سے ہم دونوں دوست بن گئے، ہم زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سکول میں تفریح کے وقت کسی نے میرا نام زور سے پکارتے ہوئے کہا ‘فلانی’ پیچھے دیکھا کہ خاکی بوٹ، سر پر ٹوپی پہنے سرمچاروں کی طرح مسکراتے ہوئے حمل میری طرف آرہا ہے۔ نزدیک آکر کہنے لگا کیسا لگ رہا ہوں میں؟ میں نے ستاتے ہوئے کہا ‘بیگائے ٹائم ءِ لوگ ءَ چے درمیا جل گوات ترا بارت، وتی باڈی ءَ بیچار’، وقت گذرنے کے ساتھ ہم مزید ایک دوسرے کو جاننے لگے اور ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب آزادی کی تحریک میں شامل ہونا ہے اور اس کیلئے ہم نے سرمچاروں کا پیچھا کرنا شروع کیا جو بازاروں کے گشت پر تعینات تھے لیکن وقتی طور پر ہم ناکام رہیں۔ کچھ وقت اس طرح چلنے کے بعد ہم سکول سے فارغ ہوگئے اور ہمارا زیادہ وقت ملاقات نہیں ہوسکا لیکن حمل کوششیں کرتا رہا کہ شاید کوئی ہم پر بھروسہ کرکے اپنے ساتھ شامل کردے۔ ایک مرتبہ عید کے دن حمل کو فون کرکے اس سے ملنے چلا گیا۔ تو دیکھا پرانے کپڑے پہنے حمل میرے انتظار میں بیٹھا ہے سلام دعا کے بعد میں نے پوچھا آج عید کا دن ہے نئے کپڑے نہیں لئے؟ تو کہنے لگا ہاں کپڑے لئے ہیں لیکن پہننے کو من نہیں کررہا ہے۔ پوچھا کیوں؟ تو بتایا کہ ہمارے مائیں بہنیں روڈوں پر خوار ہیں نوجوان پہاڑوں میں ہیں شہید ہو رہے ہیں زمین پر دوسروں کا قبضہ ہے اس طرح میں کیسے عید کر سکتا ہوں۔ میں نے مذاق میں جواب دیا ‘واہ کجام جذبہ بس ہمے وڑا بدار ءَ جوان’۔ حمل: ‘تو ہر وقت ءَ انچو مزاک بزور شریں کار ءَ مکاں’۔ حال احوال کےبعد پوچھا تنظیم کا کوئی لنک ملا یا نہیں؟ حمل نے کہا فلال نہیں۔
اس وقت میں بی ایل ایف کے ایک علاقائی ذمہ دار کے رابطے میں تھا تو میں نے حمل سے کہا کہ بی ایل ایف کا ایک ذمہ دار ہے میں نے آپ کے بارے بتایا ہے ذمہ دار نے کہا کہ حمل کو فلال اپنے رابطے میں رکھو جب ضرورت ہوگا تو ہم آپ دونوں کو بلائیں گے۔ کچھ وقت ایسی طرح چلتا رہا اور ہم علاقے میں تنظیم کیلئے جاسوسی کرتے رہیں۔
جب فوجی آپریشنوں میں تیزی ہوئی تو میرا رابطہ ذمہ دار کے ساتھ کٹ گیا۔ اس طرح ہم پھر وقتی ناکام ہوئے۔ لیکن اس کے بعد حمل کوششیں کرتا رہا بالآخر حمل کا رابطہ تنظیم کے ساتھ ہوا اور وہ تنظیم کے صفحوں میں شامل ہوگیا۔
کچھ وقت گذرنے کے بعد 2016 میں میرے موبائل پر نامعلوم نمبر سے مسیج آیا ‘Hi’، میں نے پوچھا ‘کون؟’ تو سامنے والے نمبر پر جواب موصول ہوا۔ ‘I Am Hammal Fateh’
میں: جی حمل جان حال کن چونے۔
حمل: جی شکریں مہ وشیں، تو چونے، کجائے، چے کنگائے۔
میں: بلکل خیریت، من فلاں جاگہ انت دوکان ءَ کارا انت۔
حمل: واہ مارا ہم ہمے علاقہ ءَ سنگت لوٹیت شر بوت کہ تو ہمودا ءِ۔
میں: انا پریشان مبو من ھمیدا انت۔
کچھ حال احوال کرنے کے بعد حمل نے اجازت لیا لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ حمل تنظیم میں شامل ہے کچھ وقت اسی طرح حال احوال ہوتا رہا ایک دن حمل نے کہا میں بی آر اے میں ہوں اور کچھ وقت ہوا ہے کہ فلاں نیٹورک سے منسلک ہوں ابھی ہم گومازی کے گوریلا کیمپ میں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ بہت اچھا ہوا لیکن آپ شہری نیٹورک میں ہوتے تو اور زیادہ فائدہ ہوتا اس طرح ہم مل کر بہت سے کام کر سکتے تھے۔تو حمل نے کہا کہ مجھے فلانہ نے تنظیم میں شامل کیا ہے اگر اس کے نیٹورک میں ہوتے تو ہم بہت کم دن زندہ ہوتے۔ (کیونکہ وہ شخص رازداری کرنے میں بہت کمزور تھا)
ایک سال تک ہم متواتر رابطے میں تھےاور بہت سی تنظیمی سرگرمیوں پر بحث مباحثے کرتے رہیں۔ سات مہینے بعد میں شال میں ایک گوریلا کیمپ میں تربیت کیلئے روانہ ہوگیا۔ دوران تربیت میں مسلسل رابطے میں تھا کہ اس وقت دالبندین میں چائینیز قافلے پر فدائی حملہ ہوا۔ شروع میں نیوز چینلز اور وٹس ایپ گروپ میں نیوز موصول ہوئی لیکن اس وقت بلوچ جنگ میں فدائی حملہ عام نہیں تھا اس لئے میں نے اس نیوز کو نظر انداز کر دیا۔ ایک دن بعد حمل نے مجھے مسیج کیا۔
حمل: تو سرپد ءِ بلوچ خودکش (فدائی) دھماکہ ءِ کرتگ۔
میں: نا کدی و کجا بوتگ۔
حمل: دالبندین ءَ چائینیز کنوائی ء سرا۔
میں: ھو ھو نیوز ءِ دیست بلے انچو حال انت کس نہ مرتگ۔
حمل: نہ پاکستان دروغ بندی دھماکہ برابر کپتہ ایشانی مردم مرتگ بس نیوز ءِ چیر دیاگا انت۔
میں: بلوچ بائدیں خودکش (فدائی) حملہ مکناں۔
حمل: ہاہاہاہاہاہا پرچہ تو زانہ دگے شرتریں حملہ کرت کنے۔
میں: انا آ گپ نہ انت بلے اے کمو دگے وڑیں قصہ ءِ بیت، تو نیوز ءُ مھلوک ءِ گپ آن بیچار چے گشاگا انت ۔
حمل: ہاہاہاہاہاہا اے ہمے مھلوک انت کہ 2014، 2015 سنگت ءَ کوشارینتاں پدا وت شوتاں گوں فوج ءَ اوار بوتاں انگہ الزام ءِ جننت ک شومہ زرے واستہ کارا ءِ، تئو مھلوک ءَ بل وتی کارا بیچار کہ تو چے کنگائے۔
میں : ھو تئی گپ راست انت بلے انو چو کس مجبور نا انت کہ خودکش بکاں۔
اس کے بعد حمل متواتر لکھتا گیا جس کی تفصیل اس طرح ہے:
زمین پر دوسروں کا قبضہ ہے دو وقت کی روٹی اور چھت کیلئے ہم خوار ہیں ہر جگہ جائیں 20 مرتبہ اپنا شناخت دیں کہ ہم فلاں خان ہیں اگر ہمارے سامنے ہمارے ماں، باپ، بھائی، بہن یا کسی بزرگ پر کوئی ہاتھ اٹھائے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہمارے گھروں میں دشمن بے جھجک داخل ہوسکتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی انصاف نہیں، ہم اتنے خوف کے شکار ہیں کہ دشمن کے رندی کو بھی جی سر جی سر کہتے ہیں، اور آپ کہتے ہو ہم اتنا مجبور نہیں ہیں کہ خودکش کریں تو اور مجبوری کیا ہوگی کہ کوئی کل آکر ہمارے کپڑے اتارے پھر ہم مجبور ہونگے خودکش کرینگے ایک بات یاد رکھنا اگر کوئی ہمارے کپڑے اتارے تو پھر مجبور ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ پھر تمہاری وہ عزت نہیں رہے گی جو پہلے تھی جیسا کہ بنگال کا قصہ مشہور ہے کہ آزادی کے بعد بھی وہ داغ ان کے تاریخ کا حصہ ہے جو ایک ناسور مرض کی طرح ان کے جسموں پر چپھکا ہے۔ تو آپ کو کیا لگتا ہے غیرت کا ٹھیکہ لینے والا بلوچ کیا اس داغ کے ساتھ آزادی کی زندگی گزار سکے گا۔ پھر پنجابی ہمیں طعنہ دینگے کہ ہم نے بلوچوں کے عزتوں کے ساتھ کھیلا ہے پھر تم کیا جواب دوگے۔ کل افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ ہم آج ایسا قدم اٹھائیں کہ دشمن بھی ہمارے ناموں سے خوف کھائے۔ بہتر یہی ہوگا کہ آج ہم مسکرا کر موت کو گلے لگائیں تاکہ کل تاریخ ہمیں دہرانے سے نہ شرمائے۔ اس کے بعد حمل کو جواب دینے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ (اور یقیناً تاریخ حمل کو دہرانے میں نہیں شرمائے گا)
کچھ مہینے بعد کراچی میں چائینیز قونصلیٹ پر دوسرا فدائی حملہ ہوتا ہے جس میں تین فدائین حصہ لیتے ہیں۔
بی ایل اے کی بڑھتی طاقت اور حملوں سے دشمن کو سخت مزاحمت کا سامنا ہوا جس کے بعد 25 دسمبر 2018 کو استاد اسلم بلوچ کو خودکش حملے میں شہید کیا گیا، یوں سمجھو اس وقت بی ایل اے کو ایک سخت حالات کا سامنا ہوا۔ حمل دوبارہ مجھے مسیج کرتا ہے:
حمل: سلام حال کن چونے
میں: جی شکریں، کرم انت، تو حالاں بدئے۔
حمل: حال ءَ جست ءَ مکاں بربادی انت۔
میں: اللہ ھیر بکاں چے بوتگ۔
حمل: اے رندی مارا مزانیں نقصان ءِ بوت استاد اسلم شہید بوت۔
میں: نہ یکیے رواگا تنظیم ختم نبی اے وڑیں جلی برزی بنت پریشان مبو۔
حمل: ھو بلے استاد ءَ جنگ ءَ نوکیں رنگ ءِ داتگ۔ سنگت استاد ءِ سرپرستی ءَ سک مخلصی و محنت ءِ گومہ کار کناگائیتاں نو بریں چے بیت۔
میں: ہر کسہ کار کنگی انت آ کار کنت کس ءَ کہ نکنت راہ پچیں واپس شوت کنت۔
حمل : ہاہاہاہاہاہا ھو راست گشے چوناہا ما نو اے چیزاں عادت کرتگ۔
میں : ہاہاہاہاہاہا جوان ءِ پدا حال کنیں۔
کچھ وقت بعد حمل مجھ سے بہت کم رابطہ کرنے لگا اور جب بھی رابطہ کرتا تو یہ بات ضرور پوچھتا کہ گوادر کب جاؤ گے مجھے وہاں بہت ضروری کام ہے۔ ایک دن میں نے حمل کو دو مہینے کا وقت دیا اور دو مہینے بعد میں گوادر چلا گیا۔ تو حمل نے نیا موبائل اور سم لینے کو کہا کہ اب ہم نئے موبائل سے رابطہ رکھیں گے اور کہا کہ آپ کو پی سی ہوٹل اور پورٹ ایریا کے معلومات اکھٹے کرنے ہیں۔
لیکن مجھے پتا نہیں تھا حمل فدائین میں شامل ہوگیا ہے اور وہ اپنی فدائی مشن کیلئے تیاریاں کر رہا ہے کیونکہ حمل رازداری حوالے سے بہت سخت تھا اور بس مجھے معلومات اکھٹا کرنے کو کہا تھا۔ تین مہینے گوادر میں رہنے کے بعد مجھے واپس شال جانا پڑا۔ میں نے حمل سے رابطہ کیا اور کہا میں واپس شال جارہا ہوں اگر کوئی کام ہے تو بتا دیں میں چار پانچ مہینے گوادر نہیں جاسکتا ہوں۔ مارچ 2019 کو میں شال روانہ ہوا کچھ دنوں تک حمل سے رابطہ ہونے کے بعد پھر اسکا نمبر مسلسل بند آیا۔ مجھے لگا شاید کسی تنظیمی کام کی وجہ سے وہ نیٹورک سے باہر ہے۔ 11 مئی 2019 کے 4:30 بجے ایک سنگت مجھے مسیج کرتا ہے۔
سنگت: حال کن انچو حال انت کہ گوادر ءَ پی سی ہوٹل ءَ حملہ انت۔
میں: نہ من ءَ معلوم نہ انت من گوادرءَ نہ اون۔
سنگت: حال پکا انت نیوز ءَ چلاگا انت۔
میں جواب دینے والا تھا کہ گوادر سے دوسرے سنگت نے مُجھے مسیج کیا
سنگت 2: گوادرءَ پی سی ءَ حملہ انت۔
میں: ھو یار من ءَ انوں دیگے سنگت ءِ حال دات، حملہ کدی بوتگ۔
سنگت 2: سئے بجہ حملہ شروع بوتگ انگا جنگ چلاگا انت گھنٹہ ءِ بیت فائرنگ و دھماکہ ہانی آواز انت۔
میں : چلو ھیر وتی ھیال ءَ بکاں ۔
چوبیس گھنٹے سے زیادہ چلنے والے اس جنگ نے دشمن کے ہوش اڑا دئیے وہ کبھی کس ہیڈکوارٹر کو رپورٹ طلب کرتا کبھی کس ونگ کو اس کے باوجود تین فدائین سیسہ پلائی دیوار کی طرح دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے دشمن ایٹمی طاقت ہونے باوجود فدائین کے سامنے بے بس تھا۔
جنگ کے ختم ہونے کے بعد اگلے دن حمل کے کزن نے مجھے مسیج کیا کہ کل شام حمل کے جنازے کو لایا جا رہا ہے آپ آؤگے یا نہیں، میں نے بس اوکے ریپلائے کرکے نمبر بند کر دیا۔
جب میں جنازے پر پہنچا تو لوگوں کے ہجوم کے ساتھ فوج کی گاڑیاں بھی قبرستان میں موجود تھے اور وہ نائیٹ ویژن دوربین سے پورے میدان کو سرچ کر رہے تھے لوگوں کی ہجوم حمل کی بہادری اور ہمت کے قصے ایک دوسرے کو سنارہے تھے بلکل ایسے جیسے ایک گمنام بستی والوں کو اب لوگ حمل کی وجہ سے جانتے ہونگے جہاں اس میں ایک فدائی اپنی ماں کی آغوش میں سورہا ہے اور ہم نے حمل کو سپرد گلزمین کرکے واپس اس قصے کو اپنے بچوں تک پہنچانے کیلئے چلے گئے۔
جانے سے پہلے حمل نے میرا نمبر مرکز کے حوالے کیا تھا تین دن بعد میں نے اپنے موبائل و مذکورہ ایپلیکیشن کو کھولا جس کے انبوکس میں ایک دن پہلے موصول ہونے والے نامعلوم نمبر سے مسیج پڑا ہوا تھا۔
نامعلوم نمبر: سلام سنگت تئی نمبر حمل ءَ داتگ گوشتگے حال احوالِ بکاں۔
میں: وعلیکم السلام جی شر کرتگ من ہر وقت لائن ءَ ااون ہر کدی ضرورت کپت حال بکن۔
تین سال مرکز سے حال احوال کرنے کے بعد مارچ 2021 کو مذکورہ سنگت نے مجھے مرکز آنے کو کہا۔ جب میں مرکز
پہنچا اگلے دن بی ایل اے ایک کمانڈرسے ملاقات ہوا جس نے حمل کے بارے میں کچھ اس طرح بیان کیا:
ہمارے سارے سنگت مخلص اور ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن حمل اپنی مثال آپ تھا وہ محنتی تھا اپنے کام کو بہت ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ سرانجام دیتا تھا۔ جب ہم نے حمل کو کہا کہ تمہارا اور ساتھیوں کا مشن یہ ہے کہ گوادر پی سی ہوٹل پر حملہ کرنا ہے حمل یہ سن کر پریشان ہوا اور سوچنے لگا تو کمانڈ نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو حمل نے بتایا؛ کہ میرا نام بھی حمل ہے اور حمل جیہند کا نام گوادر کے زر کے ساتھ بہادری سے لیا جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ میں اپنے مقاصد میں پورا نا اتروں اور لوگ حمل کے نام کو کسی دوسرے زاویہ سے بیان کرنے لگیں میں اس وجہ سے سوچ میں پڑ گیا ہوں۔
ہائی کمانڈ نے جواب دیا:
آپ نے ایسا سوچا ہے تو آپ بلکل اپنے مقاصد میں پورا اترو گے کیونکہ جو انسان خود کو کسی کے ساتھ موازنہ کرتا ہے تو قدرت بھی اس کے تقدیر کو اس کے کردار جیسا بناتا ہے۔
اور بلکل ایسا ہی ہوا حمل فتح نے ملکر اپنے ساتھیوں کے ساتھ سمندر کو باور کرایا کہ ہر حمل آپ کیلئے حمل جیہند کا کردار بننے کیلئے تیار ہے تاکہ آپ کی خوبصورتی ہماری امانت بن کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپ کے پاس موجود رہے۔ اس خوبصورتی کو برقرار رکھنے کیلئے فدائی اسد، فدائی کچکول، فدائی منصب، فدائی حمل نے اپنا خون دے کر آپریشن زرپہازگ کا آغاز کر دیا جس کے تسلسل کو زِر جیسا خوبصورت چہرہ فدائی سربلند بھی عین اسی زر کی لہروں کے سامنے خود کو فنا کرکے پیغام دیتا ہے کہ ہم رہیں یا نہ رہیں آپ کی خوبصورتی کو برقرار رہنا ہے۔ آپ کو تا صد زندہ رہنا ہے اور آپ کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کیلئے زرپہاز آئیں اور آزادی صبح تک آپ آپ کیلئے زرپہازگ آتے رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔