بلوچ بزرگ قوم دوست رہنماء ڈاکٹر حکیم لہڑی نے کہا ہے کہ آج کا دن 26 اپریل فدائی شاری شہید کا دن ہے۔ شاری نے جس شان سے اپنے فرض کو ادا کیا اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر حکیم لہڑی نے فدائی شاری بلوچ، بلوچ مزاحمتی تاریخ اور موجودہ بلوچ تحریک کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
حکیم لہڑی کا کہنا تھا کہ ماضی کے جھروکو میں بھی جھانکنا چاہیے کہ ہماری تاریخ، ہماری جوانمردی اور ہماری بہادری؛ انگریزوں کیخلاف خان مہراب خان نے جو جرات اور بہادری دکھائی وہ تیرہ نومبر 1839 تھی۔ ہم اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہیں پھر خان خدائیداد کو پابند سلاسل کیا گیا، یہاں تک کہ جب وہ وفات پا گئے تو پشین ملیزئی میں ان کے قبر کو بھی زنجیروں میں جھکڑا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج میں آغا عبدالکریم خان، آغا سلطان ابراہیم خان کو بھی یاد کرونگا۔ گیارہ اگست 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے رات کے 12 بجے آل انڈیا ریڈیو سے بلوچستان کو ایک مملکت کی حیثیت سے آزاد ڈکلئر کیا۔ اس سے پہلے 1946 میں خان احمد یار خان، لیاقت علی خان اور جناح کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ علاقے جو لیز پر لیئے گئے ہیں جیسے کہ سبی، ڈیرہ بگٹی، مری، بولان، کوئٹہ اور چاغی کے علاقے، خان خدائیداد خان و لارڈ فور سنڈیمن کے درمیان دشت کے مقام پر غالباً 1882/83 میں یہ معاہدہ ہوا، اس معاہدے پر جناح اور لیاقت علی خان نے دستخط کیے تھے کہ لیز پر لیے گئے علاقوں کو بعد میں قلات میں شامل کیا جائے گا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ بعدازاں پاکستان فوج نے قلات پر فوج کشی کی۔ اس میں خان عبدالکریم خان نے سب سے پہلے مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا اور وہ اس دوران سرلٹھ چلے گئے ان کے ہمراہ ملک سعید، عنقاء، عبدالواحد کرد اور کردگاپ و دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مزاحمتی تحریک کا حصہ بنیں بعدازاں ان سے بات چیت کرکے وعدے کیئے گئے لیکن ان وعدوں سے مکر کر ہمارے زعما جن میں یہ سب شامل تھے، ان کو سزائے دے دیئے گئے۔ آغا عبدالکریم خان کو سات سال کیے ہری پور جیل میں پابند سلاسل کیا گیا جہاں خان عبدالغفار خان اور فقیر ہپی بھی تھے جنہوں نے وزیرستان میں انگریزوں کیخلاف مزاحمت کرنے سمیت بعدازاں اس ‘مملکت خداد پاکستان’ کیخلاف بھی مزاحمت کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنے ان اکابرین کو بھی نہیں بھول سکتا جن میں میر بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، بابو عبدالکریم شورش، عبدالرحیم خواجہ خیل و دیگر بھی پابند سلاسل ہوئے جنہوں نے سیاسی طور پر مزاحمت کیا۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے جن کو ہم نہیں بھول سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حکیم لہڑی نے نوروز خان کے مزاحمت، ون یونٹ، ضیاء مارشل لاء و دیگر کی تاریخ پر تفصیلی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ پھر مشرف آئیں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ کیا؛ نواب اکبر خان، بالاچ خان و ہمارے نوجوان شہید کیئے گئے۔ یہ سب ہم اپنے جدوجہد کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں جو درخت ہمارے اکابرین نے لگایا تھا آج وہ سایہ بھی دے رہا ہے اور پھل بھی دے رہا ہے۔ آج بلوچستان ایک آتش فشاں بن چکی ہے۔ آپ کہتے تھے کہ بلوچوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا لیکن آتش فشاں میں آہنی ہاتھ بھی پگھل جائینگے۔
حکیم لہڑی نے کہا کہ آج میں نے سب سے پہلے شاری کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آج کے دن فدائی شاری نے جس بہادری و جرات کا مظاہرہ کیا وہ خود ایک مثال ہے۔ بانک کریمہ، فدائی سمعیہ قلندرانی، یہ ہماری خواتین کی تاریخ ہے اور میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں (بی ایل اے آپریشن) درہِ بولان کے شہید سرمچاروں کو، گوادر کے شہید (فدائی) سرمچاروں کو، اور میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اپنے ان شہید سرمچاروں کو جنہوں نے تربت میں نیول بیس پر حملے میں بہادری کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہ اکہ ویسے تو ہمارے (پاکستان) کے فوجی مرتے بھی نہیں ہے، بڑی لڑائی بھی ہو جائے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک اہلکار مارا گیا ہے۔ میں نے ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں کو کہاں ہے کہ تم جس دلدل میں پھنسے ہو اس سے نکلے نہیں ہو، پہلے تم افغانستان میں پھنسے اب (ایرانی صدر) رئیسی کو یہاں لے آئے ہو۔ آپ نے امریکہ کیساتھ جو چھیڑخانی کی ہے اب قدرت تمہیں اس کی سزا دے گا۔
قوم دوست رہنماء ڈاکٹر حکیم لہڑی پہلی بلوچ فدائی خاتون شاری بلوچ، بلوچ مزاحمتی تاریخ اور موجودہ بلوچ جنگ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ pic.twitter.com/fv7uD6Cr6a
— Bahot | باہوٹ (@bahot_baluch) April 25, 2024