کوئی قبول کرے کوئی نہ کرے، بشیر زیب بلوچ مجید بریگیڈ کا سربراہ ہے – وزیر اعلیٰ بلوچستان

1906

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ نوشکی میں بلوچ نے پنجابی کو نہیں مارا بلکہ دہشتگردوں نے پاکستانیوں کو مارا۔ نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان میں تشدد کو الگ کردیا گیا ہے، جو پوری پاکستانی قوم کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، ہمارے خلاف تین محاذوں بندوق، بیانیہ اور پرو پاکستانی سیاسی و قبائلی لیڈر شپ کو ختم کرنے پر کام چل رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سب سے اہم دستاویز آئین پاکستان ہے اور اس کے بعد نیشنل ایکشن پلان و دیگر اہم دستاویزات ہیں، ہم نے نیشنل ایکشن پلان میں بلوچستان میں تشدد کو الگ کردیا کہ یہ کسی اور قسم کا وائلنس ہے۔ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کے اداریہ میں لکھا گیا کہ فوجی، ایف سی، لیویز کو مارنا جائز ہے، یہ مائنڈ سیٹ رہا تو ہم مسئلے کو کیسے ایڈریس کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کہ بلوچستان میں سب ٹھیک ہے، بلوچستان میں سب ٹھیک نہیں ہے، بلوچستان میں انسرجنسی ہے اور اس انسرجنسی میں تین محاذ ہمارے خلاف کھولے گئے ہیں، ایک بندوق کبھی یہاں کبھی وہاں اسٹرائیک کرتا ہے، کبھی کامیاب تو کبھی ناکام، دوسرا محاذ بیانیہ کاہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ کوئی قبول کرے کوئی نہ کرے، بشیر زیب مجید بریگیڈ کا سربراہ ہے وہ تو پریس کانفرنس نہیں کرسکتا، نہ ہی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرسکتا ہے، وہ تو وائلنٹ ہے، اس کو بیانیہ چاہیے، پاکستان کے پارلیمنٹ میں سڑکوں پر، جلسوں پر تاکہ اس کیلئے ان کے لئے پروپیگنڈہ کرے اور وہ انسرجنٹس کی بھرتیاں جاری رکھیں۔

انہوں نے کہاکہ 9 لوگ مارے گئے کیا کسی طرح کا کہرام مچایا گیا، 14 پاکستانی فوج کے جوان گوادر ہائی وے پر زندہ جلا دیئے گئے اس پر کسی جماعت یا قوم پرست نے ایک احتجاج کیا، قومی اسمبلی میں بات کی صوبائی اسمبلی میں بات کی، یہ وہ آوازیں ہیں ریاست کو نشانہ بنانا ہوں ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا ہوں، لاپتہ افراد کامسئلہ ہو وہاں آواز بڑی تیز ہوجاتی ہے یہاں آپ کی آواز خاموش یا تو آپ تشدد کی مذمت کرتے۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کی اجازت تو ریاست کے پاس ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک طرف کے واقعات پر ایک ماحول پیدا کرکے ریاست کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب ایک ارب روپے خرچ کرکے بلوچستان کے بچوں کو پڑھاتا ہے مجھے تو خوش ہونا چاہیے لیکن میرا بچہ وہاں جاکر جو نوجوان ہے ان پر اتنا کام کیا گیا ہے کہ وہاں پڑھنے کے باوجود وہاں کے لوگوں سے نفرت کرتا ہے، وہاں بلوچ کونسل بن جاتا ہے وہاں پر پشتون کونسل بن جاتا ہے، دیکھا دیکھی ہم تقسیم میں چلے جاتے ہیں جو پاکستان کی بڑی فالٹ لائن ہے اور تیسرا محاذ پاکستان کی آواز بننے والے سیاسی اور قبائلی لیڈرشپ کو ختم کیا جائے ،ان کو اتنا متازعہ کیا جائے کہ ان کی حیثیت صفر ہوجائے ،اس طرح کا ماحول ہیں کہ میرے جیسے لوگوں کی سیاسی کیئریئر ختم ہورہی ہے ہمارا بیانیہ مشہور نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں، ریاست کو براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کرنا چاہیے۔ سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ براہمداغ بگٹی بات کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کرنے سے امن قائم نہیں ہوجائے گا، ہمیں بلوچستان کے پہاڑوں پر موجود لوگوں سے بات کرنی چاہیے۔