فکر اور طرزِ گنجل
تحریر: ڈاکٹر ہیبتان بشیر
دی بلوچستان پوسٹ
وسیع کائنات، اس میں ہماری زمین اور زمین پہ اربوں انسانوں کی آبادی میں ایک فرد کی حیثیت اور اہمیت تب بامقصد ہوگی جب وہ اپنی ذاتی سوچ و عمل سے نکل کر کُل کائناتی سوچ اور عمل کا حصہ بنکر کائناتی شعور اور خوبصورتی میں اضافے کے لئے اپنے مثبت اثرات آخری سانس تک چھوڑتی رہے۔
جب ایک غلام قوم ایک ظالم اور قابض ریاست سے اپنی آزادی کے لئے جد و جہد کرتی ہے تو میری نظر میں اس سے بڑھ کر اور کوئی مقصد حیات اس سے اہم نہیں ہوسکتی کیونکہ آزادی کے بغیر انسان، انسان نہیں رہتا اور اس آزادی کی راہ پر جو درد، تکلیف، بھوک، پیاس، بے آرامی اور قربانیوں سے پُر راہ ہے اس راہ پہ اگر کوئی مخلصی، نیک نیتی، بے غرضی اور ایمانداری سے ان سب کو دل و جان سے قبول کرکے اور ایک عظیم فکر و نظریہ لیکر اس پہ آخری سانسوں تک ثابت قدم رہے تو وہ ایسے اثرات چھوڑ کر چلے جاتا ہے جو قرنوں تک سچائی کا روشن راستہ دکھاتے جاتے ہیں۔
بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں ایسے بہت سے کردار ہوں گے جن کو سوچ کر تمہیں اپنی قومی آزادی کی تحریک کو منزل تک پہنچنے میں امید اور حوصلہ ملے گا، جنہیں دیکھ اور سوچ کر کوئی بھی مخلص جہد کار اپنی حد اور بساط سے اوپر اس تحریک کے لئے سوچے گا اور خود کو ہر قربانی کے لئے پیش کرے گا۔ انہی کرداروں میں سے ایک کردار سنگت گنجل کا ہے۔
بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں سنگت گنجل ایک ایسے کردار ہیں جس کے نام سے شاید بہت سے جہدکار واقف ہوں لیکن وہ جو کردار نبھاکر چلے ہیں اسکا علم بہت کم کو ہو۔ وہ ایسے نقش اور چیدگ چھوڑ کر چلے ہیں جنہیں اگر ہم سمجھ سکیں اور انکو اپنا چیدہ بنالیں تو وہ ہم میں ایک ایسی ہمت و حوصلہ اور توانائی پیدا کریں گے کہ ہم کبھی بھی اپنے فکر و نظریہ کے مرکز سے خود کو باہر نہیں پائیں گے۔
سنگت گنجل کی قومی جدوجہد، سیاست سے لیکر ایک جنگی کمانڈر اور کمانڈر سے لیکر اپنی شہادت تک ایک مکمل فکر رکھتی ہے۔جسے پرکھ کر کسی بھی جہد کار کو قومی آزادی کی تحریک پہ اور ایمان بڑھ جاتا ہے۔ فکرِ اور طرزِ گنجل تحریک کی رفتار اور حرکت میں تیزی لاتے ہیں جنہیں قومی تحریک سے جڑے ہر جہدکار کو سمجھنا اور ان پہ عمل کرنا ہے۔ جس مقصد اور قومی فکر کے لئے سنگت گنجل نے جو تاریخی تگ و دو کی ہے، جن شدید تکالیف مصیبتوں اور قربانیوں سے خود کو گذارا ہے وہی ہماری قومی آزادی کی صحیح سمت اور رخ ہے جن کے لئے ہر مخلص جہدکار کو خود کو تیار کرنا ہے۔
سنگت گنجل سے میں خود کھبی نہیں ملا ہوں لیکن جن دوستوں نے گنجل کو دیکھا اور اسکے ساتھ رہے ہیں اور جنہوں نے مجھ سے گنجل کے قصے کئے ہیں ان کو سن کر یہ ارمان رہتا ہے کہ کاش اس کردار سے میرا ملاقات ہوتا۔
ایک سنگت، سنگت گنجل کا ایک قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار وہ گنجل کے ساتھ ہوتے ہیں تو گنجل نیٹ ورک پہ آکر گھر پہ حال احوال کرتے ہیں، حال احوال کرنے پہ پتہ چلتا ہے سنگت کی ماں بہت بیمار ہے اور انہیں علاج کے لئے تیس ہزار روپے کی ضرورت ہے، دوست کہتے ہیں جب وہ یہ بات مجھ سے کہتے ہیں، تو میں انہیں کہتا ہوں کہ تم یہ بات مرکز کے دوستوں کو بتا دو وہ بندوبست کرتے ہیں پیسوں کا، تو گنجل کہتے ہیں نہیں میں اپنی ذات کے لئے دوستوں کو پیسوں کے لئے نہیں کہہ سکتا، جب ہم وہاں نیٹ ورک سے اوتاق چلے جاتے ہیں تو وہاں ایک سینئر دوست کو بھی اس بات کا خبر ہوجاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اوتاق کے پیسے ہیں تم ان پیسوں سے تیس ہزار اپنے ماں کے علاج کے لئے بھیج دو تو سنگت گنجل اس بات پہ بہت غصہ کرتے ہیں کہ تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اوتاق کے پیسے اپنے گھر بھیج دوں؟
گنجل کو اس بات کا مکمل تکلیف رہا ہوگا کہ اسکی ماں تکلیف میں ہے کیونکہ ماں کی تکلیف کسی بھی انسان کو بہت اذیت میں رکھتی ہے لیکن تحریک اور نظریہ کے ساتھ ایک مخلص اور بے غرض جہدکار اس شدید اذیت کو بھی سہہ کر اپنی پوری توجہ اپنے قومی فکر و نظریہ پہ رکھتی ہے۔
سنگت کہتے ہیں سنگت گنجل کیمپ کمانڈر ہوکر بھی اوتاق کے وہ سب کام اور ذمہ داریاں ادا کرتے تھے جو ایک سپاہی کرتا تھا، گھاٹ پہ جانا، کھانا بنانا اور وہ اوتاق کے ہر کام کرتے تھے۔
وہ خود جسمانی حوالے سے سخت بیمار تھے، اسکے ہاتھ کی انگلیاں کام نہیں کرتے تھے جیسے وہ معزور ہو لیکن اسکا ہمت اور حوصلہ اتنا بلند ہوتا تھا کہ ہم جو جسمانی حوالے سے مکمل تندرست تھے ہم سے کئی گنا زیادہ کام وہ کرتے تھے۔ اس لئے سنگت کہتے ہیں کہ گنجل کہا کرتا تھا انسان کمزور جسم سے نہیں بلکہ ذہن سے ہوتا ہے۔
سنگت گنجل کا ایک اور ساتھی کہتا ہے کہ جب ہم گشت پہ نکلتے تھے تو جس وقت گنجل گشت پہ نہ ہوتے تھے تو وہ اوتاق کے پیسے اور کھانے کے سارے سامان ہمیں لے جانے کو کہتے کہ تم انکو ساتھ رکھو وہاں دوستوں کو انکی ہم سے زیادہ ضرورت ہوگی لیکن جب وہ خود گشت کے لئے نکلتے تو سب سامان اور پیسے کیمپ میں ہمارے پاس رکھتے وہ کہتے کہ تم لوگوں کو یہاں انکی زیادہ ضرورت ہوگی۔
اتنا مہروان سنگت جو اپنے سارے دوستوں کو مامتا جیسی مہر کرتے تھے انکو کھبی بھی اپنی فکر نہیں رہتی بلکہ ہر وقت دوستوں کی فکر رہتی کہ وہ کیسے ہوں گے۔ جب وہ انکے ساتھ نہیں ہوگا انکا کیا حال ہوگا۔ اسی لئے وہ اپنی ذات سے بے نیاز بس سنگتوں کی فکر کرتے تھے۔
دوستوں کے ساتھ شغل مذاق بے پناہ کرتے تھے لیکن ڈسپلن کے سخت پابند تھے۔ سنگت کہتے ہیں کہ وہ مکمل ایک کمانڈر تھے۔تحریک اور فکر کے ساتھ کچھ غلط بات ہوتی تو اسکا سخت رد عمل دیتے اور صبر و برداشت اتنا زیادہ تھا کہ اسکی ذات پہ ناجائز باتیں ہوتی، اسکے خلاف طرح طرح کے رویے اپنائے جاتے لیکن وہ ان پہ اف تک نہیں کرتا۔
کنجل اپنے اور دوسرے ساتھی تنظیموں کے دوستوں میں کچھ بھی فرق نہیں کرتے تھے سب کو برابر دیکھتے اور برابری کا رویہ رکھتے تھے۔
جب وہ کیمپ میں دوستوں کو سرکل دیتے تو بہت ہی سنجیدہ دلیل اور منطق کے ساتھ سب دوستوں کو مطمن کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنے سرکلوں میں شہیدوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے اور تنظیمی ڈسپلن پہ بہت باتیں کرتے۔
پند خواری اور گشت میں وہ سب سے آگے ہوتے۔ ایک اور دوست سنگت گنجل کا ایک اور قصہ کرتے ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ وہ نیٹ ورک پہ گنجل کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ گھر اپنے بیوی سے بات کررہے ہوتے ہیں، تو بیوی فون پہ بول رہی ہوتی ہے تمہیں بہت دیر ہوئی ہے اب گھر آنا ہمیں تمہاری یاد اور کمی بہت محسوس ہوتی ہے ۔تو گنجل کہتے ہیں
“من پہ ترا نیاں من نوں بس پہ وتی زمین آں۔”
۲۴ ستمبر ۲۰۲۱ کو سنگت گنجل شورپارود میں دشمن کے گھیرے میں آتے ہیں اور وہاں بھی شاید دشمن کے گھیرے کو توڑ کر نکل سکتے ہیں لیکن اپنے دوستوں کو دشمن کے گھیرے سے نکالنے کے لئے خود جنگ لڑتے ہیں اور آخری گولی تک لڑ کر پانچ اور دوستوں کے ساتھ شہادت پاتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔