وطن دوست مذہبی، عالم و دانشور مولانا عبدالحق بلوچ کی چودھویں برسی کے موقع پر ہفتے کی شام مولانا عبدالحق یاتگاری مجلس کے زیر اہتمام تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف طبقہ فکر سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی۔
مولانا عبدالحق بلوچ کے برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا کے بھائی پروفیسر مولانا صلاح الدین نے کہا کہ مولانا عبدالحق جیسے عظیم شخصیات کی یادیں ہم سے منسلک رہیں گی، میری خوش قسمتی ہے کہ بطور بھائی مولانا نے ہماری پرورش کی، ان کے زیر سایہ ہم نے زندگی کے اسرار سیکھے، انہوں نے کہاکہ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد مختلف افکار نے جنم لیا کچھ علما نے انگریزوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بات کی جب کہ ایک طبقہ نے انگریزوں کے کھل کر مخالفت کی تیسرے طبقہ نے فیصلہ کیا کہ انگریزوں کی جتنی اچھی خصوصیات ہیں انہیں اپنایا جائے اور اپنے مذہبی افکار و تعلیمات سے بھی جڑا رہ کر کام کیے جائیں، ہمارے علاقے کے علماء کو کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست نے کافی اثر کیا ہمارے ہاں کانگریس زہنیت غالب رہا اس طبقہ پر روس نواز ہونے کا الزام بھی لگا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالحق اس زمانے میں بلوچ نیشنل ازم سے متاثر تھا۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر جب بلوچستان کے بارے رائے سامنے آیا تو بہت سے علما ایسے تھے جنہوں نے بلوچستان کی الگ شناخت کی بات کی مولانا عبدالحق بطور بلوچ الگ شناخت کے حامی تھے، ان کی یادداشت قابل رشک تھی انہیں کبھی کوئی بات نہیں بھولتی تھی۔ جماعت اسلامی میں ان کی شمولیت مذہبی اسکالر سے تعلقات کی وجہ سے بنا، انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کے زمانے میں جب نیو ورلڈ آرڈر کی بازگشت آئی تو مولانا نے اپنے وطن اور قوم کی فکر کی انہوں نے بارہا کہا تھا کہ بلوچ کلچر اسلام سے بہت قریب ہے، استحصالی دنیا میں اپنے وطن اور قوم کی فکر اور عملی جدوجہد ایک عظیم کارنامہ ہے۔
تقریب سے معروف عالم دین مولانا فضل الرحمن قاسمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیچ میں مولانا عبدالحق کا وجود ہمارے لیے ایک نعمت ہے، مذہبی طبقہ ان کے تعلیماتِ کی بدولت سرخرو ہے، بلوچ مذہبی طبقہ ان کے طفیل بلوچ اور بلوچیت سے جڑا ہوا ہے، مولانا نے ہمیں درس دیا کہ ہم بہ حیثیت قوم تقسیم کا شکار نہ ہوں بلکہ ہرجگہ بلوچ بن کر رہیں اور بلوچستاں کو اپنا وطن مانیں۔
انہوں نے کہاکہ اسلام کی رو سے قومیت تعصب نہیں قرآن میں جابجا اقوام کا زکر ہے انبیاء کرام کا ازکار اقوام کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے، نبی اکرم پر قریش مکہ نے ہر طرح کے الزامات لگائے مگر کبھی انہیں اپنی قوم سے الگ نہیں کہا، بلوچ کو بہ حیثیت قوم اپنے وجود اور شناخت کا ادراک ہونا چاہیے جس کا پرچارک مولانا عبدالحق بلوچ تھا، آج کی بدقسمتی یہ ہے کہ مذہبی طبقہ مخصوص نصاب پڑھ کر خود کو عالم سمجھتے ہیں مگر ہم علم سے بے بہر ہیں مولانا عبدالحق نے صرف کتابیں نہیں پڑھیں بلکہ دنیا پڑھا تھا وہ ایک عظیم انسان درویش صفت شخصیت اور کامل بلوچ تھے۔
کتابی علم اور دنیا کے عملی معاملات میں بہت زیادہ فرق ہے مولانا عبدالحق کو ہر طبقہ فکر اپنے فکر سے جوڑتا ہے کیوں کہ وہ بلوچ اور بلوچستاں کے ہر معاملے میں کسی تعصب کے بغیر ہر کسی کے ساتھ میدان میں موجود تھے۔
بلوچ تاریخ نویس یوسف گچکی نے کہا کہ مولانا عبدالحق ایک فرد نہیں علمی صورت میں ایک ادارہ تھے، انہوں نے کبھی مخصوص مائینڈ سیٹ کے ساتھ معاملات طے نہیں کیے، عمل کے ہر میدان میں وہ ایک پکے بلوچ رہے، مولانا علم کا دریا اور عملی شخصیت تھے انہیں مرد قلندر کہنا بجا ہوگا، وہ قوم دوستی وطن دوستی سے بڑھ کر ایک انسان دوست شخصیت تھے۔ ابتدا میں گھر میں انہیں ایک ایسا ماحول ملا جس نے بعد میں ان کی شخصیت کو نکھار دیا۔ ان کے حلقہ احباب نے مذہبی تنگ نظری سے اجتناب برتا، جماعت اسلامی میں ہونے کے باوجود وہ کبھی ایک مذہبی جماعت میں محدود نہیں رہے اپنی شخصیت میں وہ بلوچ کلچر کی شناخت تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر گل حسن نے کہا کہ مولانا سے ابتداء زمانہ سیاسی اختلاف رہا ان کے طرز سیاست سے اختلاف رکھا مگر وہ ہمیشہ سے ایک شائستہ انسان رہے ان کے مجالس میں جاکر ان سے بحث مباحثہ کیا، بنیادی صورت میں مولانا شاید ایک مذہبی عالم تھے مگر وہ اس وطن کے سچے عاشق تھے وہ ایک سچے وطن دوست تھے۔ انہیں مذہب نے اپنی زمین اور وطن سے جدا نہیں کیا۔