بلوچ کی ثقافت مزاحمت ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کیساتھ عملاً بلوچ ہونا ہوگا – سمی دین بلوچ

504

اسلام آباد میں ہمارے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ کوئی اپنے بدتر دشمن کیساتھ نہیں کرتا ہے۔ بلوچ کی ثقافت مزاحمت، عزت و ننگ کی حفاظت ہیں۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عملاً بلوچ ہونا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء و جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ نے کراچی میں بلوچ یکہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ یوم ثقافت کے موقع پر جبری لاپتہ افراد و شہداء کی یاد میں نکالی گئی ریلی میں کیا۔

سمی دین بلوچ کا شرکاء سے خطات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب ہم اسلام میں چوک پر لاٹھیاں کھا رہے تھیں ہمارے اوپر سردی میں پانی ڈالا جارہا تھا، ہم جیلوں ڈالے گئے تو اسی کراچی، اسی بلوچستان کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلییں و یک جہت ہوکر اپنی آواز ریاست کو پہنچائی کہ جو بلوچ اسلام آباد میں آپ کے در پر کھڑا ہے وہ اکیلا نہیں ہے۔

“آپ نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔ اُس وقت جب ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمارے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ اس کراچی سمیت بلوچستان و پوری دنیا میں بسنے والے بلوچوں نے ثابت کیا کہ بلوچ تنہا نہیں ہے۔ بلوچ ہر سطح پر مزاحمت کیلئے کھڑا ہے تو باقی بلوچ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ آج کا دن بلوچ یوم ثقافت کے طور پر جانا جاتا ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے آج کے دن ہمارے جبری لاپتہ والد، بھائی، بچے جو لاپتہ کیئے گئے ہیں یا وہ بچے، نوجوان، بزرگ جو بلوچستان کے خوشحال مستقبل یا اپنے حقوق کی بات کی، مزاحمت کی بات کی وہ لاپتہ یا شہید کیئے گئے، آج بلوچ نہیں جانتا اس کا بیٹا کہاں ہے لیکن بلوچ کا نوجوان لاوارث قبرستان میں دفن کردیا گیا ہے۔

“ہم بلوچوں کیلئے عید یا دوسرے تہوار و ثقافتی دن ہو، عید جیسے مذہبی تہوار کے دن پوری دنیا اپنے پیاروں سے ملتی ہے، خوشی مناتی ہے، یا ثقافتی دن ہو کہ دوسرے اقوام اپنے ثقافتی دن خوشیوں کیساتھ اپنی زبان، اپنی تاریخ، اپنے پوشاک کو یاد کرتے ہیں لیکن ہم سے ہمارا ثقافت چھینا گیا ہے، ہم سے سب کچھ چھینا گیا ہے، ہمیں ایسے درد و تکلیف میں ڈالا گیا ہے کہ ہم اسی سے ہی برسرپیکار ہیں۔”

سمی دین نے کہا کہ آج ہم ثقافت کے نام پر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ثقافت وہ مزاحمت ہے کہ جس نے بلوچ کو زندہ رکھا ہے۔ بلوچ کی ثقافت ایک دن نہیں کہ تم اس کو مناتے ہو، بلوچ کی ثقافت اس کی وفا، اسکی شناخت، تشخص، زبان، پوشاک، گھر، اٹھنا بیٹھنا، اخلاق یہ سب ثقافت میں آتے اور جانے جاتے ہیں تو کیا آج ہم بحیثیت بلوچ دو مارچ کے علاوہ بلوچ ثقافت کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ کی ثقافت مزاحمت ہیں، بلوچ کی ثقافت باہوٹ (پناہ) دینا ہے۔ بلوچ کی ثقافت اپنی بیرگیری (بدلہ لینا) ہوتا ہے۔ بلوچ کی ثقافت مہمان نوازی، غیرت، عزت، ننگ و ناموس کی حفاظت ہے کہ ہم اپنی تاریخ دیکھے اگر بلوچ خاتون کے سر سے دوپٹہ کھینچا گیا تو بلوچ اپنی تلوار کے ساتھ کمر بستہ ہوا، اگر کوئی کسی علاقے میں آکر خواتین سے غلط برتاؤ کرتا تو بلوچ اسکا سر تن سے جدا کرتے لیکن آج مجھے بلوچ میں وہ غیرت نظر نہیں آتی، آج بلوچ کی خواتین اسلام آباد جاتے ہیں تو ان کے سروں سے دوپتے کھینچے جاتے ہیں، رات ڈھائی بجے اسلام آباد پولیس آتی ہے، سرد ہواؤں کے بیچ ان پر سرد پانی ڈالا جاتا ہے، 28 گھنٹوں تک بلوچ مائیں، بہنیں، بچے زندان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن ہمیں وہ غیرت نظر نہیں آتی ہے۔

انہوں نے ہاتھ میں بلوچ خاتون کی پاڑے ہوئے آستین و زخمی ہاتھ کی تصویر دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ تصاویر ہے جو ہمارے آنکھوں کے سامنے ہیں، ہمیں روز یاد دلاتے ہیں کہ تمہارے ماں بہنوں کیساتھ اسلام آباد اس طرح کا برتاؤ کیا گیا۔ بلوچ کی ثقافت مزاحمت، عزت و ننگ کی حفاظت ہیں۔ بلوچ اپنے ترانے میں “لج گہارانی” کہتا ہے تو اسے وہ لج (عزت) ہونا ہوگا۔

سمی دین نے کہا کہ بلوچ کی ثقافت اپنی زمین کی حفاظت ہے۔ بلوچ کی ثقافت دو روپے کیلئے اپنی بھائی کی مخبری کرنا نہیں ہے۔ آج ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ بلوچ کون ہے۔ ہمیں ایک دن کے بلوچ ہونے سے نکلنا ہے، بلوچ کی جو اصل پہچان ہے، بلوچ کی تعریف ہیں ہمیں وہ جاننا ہے۔

سمی دین نے کہا کہ آج اس ملک میں ایک نام نہاد جمہوریت ہے جس میں عدلیہ کی بات کی جاتی ہے۔ آج ہمارے بچوں، خواتین، نوجوانوں پر جو ظلم کرتے ہیں لیکن وہ مجرم انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے ہیں۔ بلوچ کیلئے مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے اس ملک کی آئین، قانون، اس کی پولیس و ادارے کسی سے کوئی امید نہیں۔ بلوچستان میں ہم پر جو بھی ظلم کیا جاتا ہے اس سے اس ملک کو کوئی سروکار نہیں، وہی ریاستی ادارے یہ سب کچھ کررہے ہیں لیکن اسی ریاست کے ادارے ہمیں انصاف نہیں دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج گریشہ خضدار میں کمسنی شادی پر بات کریں، یا گوادر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بات کریں یا کہ آج یوم ثقافت کے دن بلوچ یہاں سڑکوں پر ہم بیٹھے ہیں تو ہم پھر ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ بلوچ کیلئے مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بلوچ کو زندہ رکھنا چاہتے ہو، اس کی شناخت، زبان کو زندہ رکھنا چاہتے ہو تو اس کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہمیں دو وقت کی روٹی، ایک سرکاری پوسٹ کیلئے خود کو محدود نہیں کرنا ہے، بلوچ زندہ رہے گا تو اس کا مستقبل خوشحال ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ہمارے ماؤں، بچوں، خواتین، نوجوانوں کیساتھ جو کچھ کیا جاتا ہے وہ کوئی اپنے بدتر دشمن کیساتھ نہیں کرتا ہے، یہاں فلسطین و کمشیر کی مثالیں دی جاتی ہے لیکن اسلام آباد کی پولیس نے بلوچ خواتین و بچوں، جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کیساتھ کیا اس کی مثال کئی پر بھی نہیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔

سمی دین نے کہا کہ ہمیں بلوچ کے درد و تکلیف کو سمجھنا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہماری قومی ذمہ داری کیا ہے۔ ہم بلوچی پوشاک پہنتے ہیں لیکن یہ باطن جاننا ہوگا ہمیں ظاہری نہیں بلکہ عملاً بلوچ ہونا ہوگا۔