عارف علوی پاکستانی تاریخ کے مسلسل چوتھے صدر تھے، جو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد اس عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک میں سیاسی تناؤ اپنے عروج پر ہے، حکومتی اتحاد کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور اپوزیشن کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
ملک کے 14ویں صدر کے انتخاب میں پاکستان کے وفاق اور صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد قانون سازوں نے حصہ لیا جب کہ رائے شماری کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے شروع ہو کر سہ پہر چار بجے تک جاری رہا۔
وفاقی پارلیمان میں آصف علی زرداری کو 255 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ ان کے مقابلے میں سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی نے 119 ووٹ حاصل کیے۔
قومی اسمبلی میں 398 میں سے 381 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور جے یو آئی (ف) کے 13 ارکان نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینٹروں شبلی فراز، اعظم سواتی، مظفر حسین شاہ اور اعجاز چوہدری نے بھی اپنے ووٹ کاسٹ نہیں کیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت والی سندھ اسمبلی میں آصف علی زرداری نے 151 ووٹ حاصل کیے جبکہ محمود خان اچکزئی کو 9 ووٹ ملے۔ وہاں کُل 161 ووٹ کاسٹ کیے گئے جن میں سے ایک ووٹ مسترد ہوا۔
پنجاب اسمبلی میں آصف علی زرداری نے 246 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف محمود خان اچکزئی کو 100 ووٹ ملے۔ صوبائی اسمبلی میں کل 353 میں سے 352 ارکان نے ووٹ ڈالا جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں محمود اچکزئی کو 91 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ حکومتی اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری کو 17 ووٹ پڑے۔ بلوچستان اسمبلی میں آصف علی زرداری کو 47 ووٹ ملے جبکہ محمود خان اچکزئی کو کسی رکن نے ووٹ نہیں دیا۔
صدر آصف علی زرداری اس سے قبل دو ہزار آٹھ سے دو ہزار تیرہ تک پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں۔ انہیں کے دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی، جس کے تحت صدر کو حاصل زیادہ تر اختیارات وزیراعظم اور پارلیمان کو منتقل کر دیے گئے تھے۔