افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو – (دوسری قسط) – وش دل بلوچ

156

افسانہ | میرے زیست کو عنوان دو
(دوسری قسط)

تحریر: وش دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی تلخیوں کا ایک ایسا جوکھم ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر تکالیف ہوتے ہیں بالخصوص ایک غلام کی زندگی ایسی کیفیت سے معمول کے بنیاد پر ہی گذرتا رہتا ہے، کچھ مفکر، دوراندیش، رہنماء و رہبر، ذات پات سے بے نیاز لوگ صرف دنیا میں انسانی معاملات پر اپنی دن رات صرف کرنا چاہتے ہیں، بہت بڑے اور طویل عمر ان کے کاوشوں کیلئے درکار ہوتا ہے ہر ایک کیڈر، ہمدرد یا امید وار تمام ذانتکار و رہنماؤں کے عمر طویل کی دعا میں محو ملتے ہیں تاکہ کار انسانی میں خیر کا راستہ صدا ہموار رہے، لیکن پھر بھی سُقراط کہتا ہے “زیست کے سارے تلخیوں، زخموں، درد اور تکالیفوں سے نجات انسان کو موت ہی دیتا ہے”، مرنا اچھا ہے ورنا زندگی کا اختتام بڑھاپا ہے اور بڑھاپا محتاجی ہے محتاجی تکلیف دیتا ہے تکلیفیں قوتِ برداشت کھا جاتے ہیں پھر انسان کھوکھلا ہی رہ جاتا ہے، ایک غلام کیلئے بچپن، ادھیڑ پن، جوانی اور بڑھاپا سب تکلیف ہی تو ہوتے ہیں۔ میرا زیست بھی غلامی کے تمام تلخیوں کی ایک معمولی سی جھلک ہو سکتی ہے، جہاں تک میں غلامی کو محسوس کرتا ہوں اس کی حقیقی شکل و صورت کو تصوراتی کیفیت میں دیکھتا ہوں تو خوف کی گہری کھائی میں جا گرتا ہوں، آج پھر دماغ میں جانا ہے شاید عنوان مل سکے میرے پاس تو نوعہ ہے، درد ہے، شکایتیں ہیں اور کچھ نہیں، آج سوچ رہا ہوں کہ کیسے کس حالت اور کس حُلیے میں جانا ہی بہتر رہے گا، ان سب کا سامنا کرنا بھی بلا کا جگر چاہتا ہے جبکہ میرے دل و جگر بلکہ سب اعضاؤں کو توانائی یہی دماغ کے لنگڑے لولے کمزور و مضبوط عنوانات ہی مہیا کرتے ہیں دل و جگر کے خاطر بھی ان کا سہارا بچتا ہے لہٰذا جو میری حقیقت ہے اسی میں جانا بہتر ہوگا میرے پاس میرے زیست کے کہانی کے سوا کچھ نہیں، میں ان سے بچ نہیں سکتا بھلا اپنے دماغ سے کوئی بچ سکتا ہے؟ آپ جو بھی سوچو اسی سوچ کا تعلق کہیں نہ کہیں دماغ کے کسی طے خانے سے جا ملتی ہے، دماغ کے اندر دماغ لڑانا گران گذرتا ہے یہاں صرف ایک ہی راستہ مفاہمت باقی رہتا ہے ان کو سچائی، احتساب، حقیقت، مساوات، آگاہی اور ایسے موضوع پر آمادہ کرسکتے ہو جو ان کےلئے اکیڈمک کا ماحول پیدا کرے جہاں تدریسی ماحول ہو تحقیق و تدقیق اہم مقصد ہو۔

آج کوئی حُلیہ نہیں جیسا ہوں ویسا جانا ہی بہتر سمجھنا ہوگا، بڑے تپاک سے داخل ہوا سب احتراماً اُٹھ کھڑے ہونے کے بعد ہر طرف سناٹا ہر طرف خاموشی، سوچا تھا آج جب داخل ہونگا تو واہیات قسم کے سیٹی اور شور شرابوں سے استقبال ہوگا لیکن یہاں بلکل میرے سوچ کے برعکس ہے، رہشون صفت عنوانات میں سے ایک خاموشی توڑ کر کہنے لگا آپ جو سوچتے ہو اُن کا وحی ہم پر پہلے نازل ہوتا ہے آپ جو ابھی ابھی ہمارے بارے سوچ رہے تھے ان پر تجزیہ و مکالمہ ہم کرچکے، آپ آؤ بڑے تپاک سے اور ہم واہیات بکھیریں؟ ایسا شاید غلط ہوگا، ہم تمسخر کو فنون میں تب شامل کرینگے جب اس سے انسان کو خوشی ملے، مذاق اسی طرح ہونا چاہیئے کہ دونوں جانب انسانی روح کی تسکین ہو، خوشی سے باغ باغ ہوں، عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچانے صرف اسی بنا پر کہ یکطرفہ تسکین کا دور چلے میرے لئے یہ غلط ہے اور ہم سب کی رائے یہی ہے۔

اب میں کہتا تو کیا کہتا، یہاں حالت یہ ہے کہ زبان کی بات اپنی جگہ دماغ کی بات چھین لی جاتی ہے آخر جگہ ہی ایسا ہے یہاں سخت ترین ادوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں کرسی پر بیٹھا اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو ایک جوتشی کی طرح گھور رہا تھا اب میں خود ان کے درمیان موجود ہوں ان کیلئے اب میری یہ کیفیت حیرانی کا باعث بن سکتا ہے، میں اگر باہر ہوتا تو یہ جان جاتے کہ میرا ارادہ کیا ہے پھر بھی ان پر کوئی اثر نہیں وہی معمول ہے وہی حالت کوئی جھکڑا ہوا زنجیروں میں کوئی شان ٹھاٹ بے نیاز بیٹھا ہے کوئی آسیبوں سے ابھی تک نہیں نکلا ہے کوئی بے خبر اپنی دنیا میں مگن، میرے نظریں اب ہاتھوں کی لکیروں سے ہٹ کر اُس لڑکی کو ڈھونڈنے لگیں جو مجھے کہہ چکی تھی کہ اگلی دفعہ جب آؤگی تو اپنی حالت زار آپ کے سامنے رکھ دونگی، لیکن کہیں بھی وہ نظر نہیں آرہی، اُن کی تین سہیلیاں نظر آرہے ہیں مگر وہ غائب ہے، ادھر اُدھر تلاشنے کے باوجود بھی وہ مجھے نہیں ملی، رہشون صفت عنوانوں میں سے ایک نے میری نظروں کی گردش سمجھ کر کہنے لگا کسی کو ڈھونڈ تو نہیں رہے ہو؟ میں نے کہا ہاں اُسی عنوان لڑکی کو جس نے مجھے یہی مخاطب ہوکر آخری وقت کہہ گئی کہ تین ہستیوں کے صحبت سے جب واپس آؤنگی تو آپ کو بتا دونگی کہ میں کیوں جاتی ہوں اور میرا حُلیہ میرا انداز ان رہشون صفت عنوانات سے مختلف کیوں ہے۔

ہاں اس کے متعلق میں آپ کو کچھ بتا دیتا ہوں، آپ کو تو صرف اس کے حلیے نہیں بلکہ ہم سب کے یہاں کے اور وہاں جانے کے دونوں حُلیے جاننا تھا لیکن خیر کوئی بات نہیں اب آپ جس عنوان کی باتوں میں ہے بہتر ہے ان پر بات کریں، اس دن جب ہم یہاں سے جا رہے تھے تو راستے میں ہمارا بہت بڑا مکالمہ ہوا لیکن میں آپ کو مختصراً اس کے بارے بتا دونگا کیونکہ یہ مکالمہ کچھ مختلف صورت اختیار کرچکی ہے ہمارے ساتھ جو لڑکی تین ہستیوں کے صحبت میں آرہی تھی اس کا ایک مقدمہ ہے ابھی تک ارسطو کے ہاں چل رہا ہے افلاطون کے موجودگی میں کیونکہ یہ مقدمہ افلاطون و ارسطو دونوں کے خلاف چل رہا ہے جبکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہم رہشون صفت عنوانات افلاطون کے ریاست کے وہ دانشمند لوگ ہیں جنہیں ریاستیں چلانی ہیں ہم نے اُس عنوان لڑکی سے راستے میں خوب بحث و مباحث کئے لیکن وہ اپنے باتوں سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں اور جب ہم افلاطون و ارسطو کے ہاں پہنچ گئے تو وہی معمول ہے کہ “ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے” اسی گہری بات پر محو فکر نظر آتے ہیں لہٰذا اس لڑکی کا مقدمہ ادھورا ہے لیکن وہ احتجاجاً وہاں بیٹھ گئی ہمیں اپنے اوقات پر پابند رہنا تھا ہم واپس آگئے اب خدا معلوم اس کے سراپا احتجاج نے افلاطون کے ریاست کی بنیادیں ہلا دی یا پھر کچھ بھی بگاڑ نہ سکا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئی ہے، میں لبوں پر معمولی سی مسکان لاکر ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر پھر رہشون صفت عنوانات کی جانب دیکھ کر کہنے لگا آپ لوگوں سے ایک لڑکی کا مقدمہ سلجھایا نہیں جاتا تو ریاستیں کیسے چلاؤگے جبکہ آپ اسی بات پر نازاں ہیں کہ آپ افلاطون کے ریاست کے وہ محدود تعداد ہے جو ریاست کیلئے چنا گیا ہے جن میں دانشمندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، آپ نہیں جانتے ریاستوں میں کتنی مشکلات ہوتے ہیں؟

میرے سوال کے بعد ایک خاموشی نے گفتگو میں اپنی جگہ بنا دی، ایسا لگا سب عنوانات ہماری طرف متوجہ ہوئیں، میں اور بھی سوال کرنا چاہ رہا تھا مگر رہشون صفت عنوانات میں سے ایک نے مجھے مزید سوال کرنے سے روک کر کہا کہ ہم کہاں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم افلاطون کے ریاست پر اپنا دانشمندی آزما رہے ہیں یا آزمائینگے ہم نے تو صاف کہہ دیا کہ ہمیں چنا گیا ہے لیکن ہم ابھی تک اسی ایک پُر فکر فقرے میں اڑے ہوئے ہیں کہ “ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتیں” لیکن رہی بات اُس عنوان لڑکی کی تو وہ خود آئے گی آپ اُن سے مقدمے کی بات کریں آپ خود جان پائیں گے، اتنے میں وہ لڑکی اسی دماغ کے بھیڑ میں دکھنے لگی جیسے ابھی ابھی آگئی ہو افسردہ دکھائی دے رہی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے یہ مقدمہ آج سے نہیں بلکہ چوبیس سو سال سے لڑ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس کی پوری عمر اتنی نہیں ہے، شاید اب سقراط کے عدالت میں بھی ریاستی اشرافیہ کا بھرمار ہے، نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر سچ کو ہمیشہ کیلئے امر کردیا وہ کیسے اس مقدمے میں نا انصافی کرے گا، میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اُس عنوان لڑکی نے مجھے آواز دی اور کہنے لگی کیا میرا ہی تذکرہ چل رہا تھا؟ بالکل آپ پر ہی بات ہو رہا تھا میں نے آپ کے مقدمے کے بارے کچھ سنا لیکن اس بات سے ابھی تک لابلد ہوں کہ آپ کا مقدمہ ہے کیا، ان رہشون صفت عنوانوں سے کسی نے بھی یہ حقیقت مجھے نہیں بتایا، شاید افلاطون کے پاسداری میں اپنا وفاداری نبھا رہے ہیں چلو اچھا ہوا آپ خود موجود ہو خود ہی ہمیں بتا دو کہ مقدمہ کیا ہے، کب سے ہے اور کیوں ہے؟
اُس نے میرے سوال کے جواب دینے کے بجائے اُلٹا مجھ سے مخاطب ہو کر ایک سوال کر لیا کہ آپ پہلے یہ بتا دیں کہ آپ اپنے زیست پر عنوان کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟ مجھے ایک لمبا عرصہ ہوا ہے اپنے مقدمے میں صرف کرتے ہوئے آج تک مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا آج بھی اُس مقدمہ خانے میں صرف یہی ورد تھا کہ “ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے” لہٰذا میں اپنے مقدمے پر تب آپ سے چرچا کرونگی جب آپ میرے اس سوال کا جواب دوگے تب جاکر میں آپ کو بتا دونگی کہ کیا مقدمہ ہے اور کب سے ہے، اُس نے یہ ساری باتیں کہہ کر صاف اشارہ دے دیا کہ جب تک میں اُسے اس عنوان منتخب کرنے کی کہانی نہیں بتا دونگا میرا سارے سوال فضول جائیں گے، میں نے کہا محترمہ سوال پر سوال نہیں کیا جاتا آپ شاید اس معظم محفل کے اصولوں سے غلط سمت پر جا رہی ہو، اُس نے مجھے پھر مخاطب کرکے کہا کہ جب میرا سوال غلط ہے تو آپ کا سوال کیسے بجا ہوا جو آپ میرے مقدمے کے بارے سب کچھ جاننا چاہتے ہو، شروعات آپ نے کی ہے میں نے نہیں، میں حیران ہوا ایک پل کیلئے خاموشی اختیار کی اور پھر اُسے کہنے لگا بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن پھر بھی میں آپ کو آپ کے حالت کو دیکھ کر ایسا محسوس کیا کہ آپ مقدمے میں تسلی بخش جواب چاہتی ہو جبکہ میں اپنے آپ بیتی کیلئے عنوان چاہتا ہوں۔ آپ کا اور میرا حالت زار ایک جیسے ہیں شاید اسی بنا پر میں نے پہل کی اور سوال کیا میرا اور کوئی ارادہ نہیں تھا، میرے اور اس کے درمیان اس بات چیت میں دماغ کے سارے عنوانات بڑے محترم انداز میں بیٹھے سن رہے تھے جیسے کسی عظیم گفتگو کا دور چل رہا ہے، اُس نے پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب دو پھر میں آپ کو اپنے مقدمے کے حوالے سب کچھ بتا دونگی، میں نے نظریں زمین پہ گاڑ دی خاموشی میں سوچنے لگ گیا کہ پہلے ایک الجھن تھا اب ایک اور اضافہ ہوگیا، میں کھڑے ہوکر اُس لڑکی سے مخاطب ہوکر یہ کہہ دیا کہ مجھے وقت دو جب اگلی دفعہ آؤنگا باقائدہ آپ سے ایک مکالمے کا دور شروع کرونگا، میری زندگی بیت گئی اس کہانی کے بکھرے ہوئے پنوں کو اکھٹا کرنے میں ظاہر سی بات ہے یہ مسئلہ دو باتوں میں اختتام تک نہیں پہنچے گا، اُس نے اس بات پر اتفاق کی اور کہا جب آپ چاہو تب مکالمہ شروع کرو مجھے انتظار کی اب عادت پڑ گئی ہے مقدمات لڑ لڑ کے، میں آخر میں یہ کہہ کر دماغ سے روانہ ہوا کہ آپ پچھلی دفعہ اتنی باتونی نہیں تھی اس دفعہ بالکل ایک دانشور کی طرح مخاطب ہو رہی تھی، اس نے بھی یہی کہہ کر مجھے باہر آنے دیا کہ اگلی دفعہ آجاؤ پھر باتیں ہونگی۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔