کیا حکمران اختر مینگل کو پہاڑوں پر بھیجنا چاہتے ہیں؟
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
پہلے لکھ چکا ہوں کہ اگر 8 فروری 2024 کو عام انتخابات ہوئے تو وہ پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے مذاق اور سب سےبڑے جھرلو ثابت ہوں گے۔ کم از کم کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نے یہ بات ثابت کردی ہے۔ بحیثیت جماعت تحریک انصاف کو انتخابی منظر نامہ سے آؤٹ کردیا گیا ہے، عمران خان سمیت تمام اہم رہنماؤں اور امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیئے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر ملک کی سب سے بڑی جماعت انتخابات کا حصہ نہ ہو تو وہ انتخابات کیا کہلائیں گے، بلوچستان کی سطح پر بی این پی مینگل کے ساتھ اسی طرح کا ہاتھ ہوا ہے۔ اختر مینگل کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کاغذات مسترد کردیئے گئے ہیں۔ جواز یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس یو اے ای کا اقامہ تھا اور انہوں گوشواروں میں یہ ظاہر نہیں کیا۔ پاکستان کے 20 فیصد سیاستداروں، اعلیٰ افسروں اور بلوچستان کی 25 فیصد نامی گرامی ہستیوں جن میں سیاستدان، بیروکریٹ اور کاروباری شخصیات شامل ہیں یو اے ای کا اقامہ رکھتے ہیں لیکن مرکز کی سطح پر تحریک انصاف اور صوبائی سطح پر بی این پی مینگل کو نشانہ بنایا گیا ہے، عذرداری یا اپیل سننے والے ٹریبونلز نے انصاف نہیں کیا تو مستقبل کا منظرنامہ واضح اور صاف ہے، یعنی ن لیگ کو “واک اوور” دیا جارہا ہے اس کی سب سے بڑی حریف پی ٹی آئی کو رنگ سے باہر کرکے امپائر نے انگلی اوپر اٹھاکر نواز لیگ کی جیت کا اعلان کردیا ہے۔
ایسے انتخابات اس سے پہلے 1997 میں ہوئے تھے جب اس وقت کے امپائرز نے بے نظیر کو 14 سیٹیں دے کر ن لیگ کی کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ نواز لیگ کے لئے یہ دوسرا موقع ہے کہ 2017 میں اس کے ساتھ جو زیادتی کی گئی تھی اس کا ازالہ اقتدار اس کی گود میں ڈال کر کیا جارہا ہے۔ لگتا ہے کہ زرداری نے دم درود کرکے یار کو آدھا منا لیا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا جارہا ہے لیکن اسے سندھ کی حکومت دی جائے گی یا پنجاب میں اس کا وجود برقرار رکھا جائیگا یا نہیں یہ فیصلہ 8 فروری کی پولنگ کے بعد ہوگا۔
قیاس آرائی یہی ہے کہ ن لیگ کو یوہی طشتری میں رکھ کر حلوہ نہیں دیا جارہا بلکہ اس سے سخت شرائط منوالی گئی ہیں۔ وہ شرائط کیا ہیں یہ نواز شریف اور طاقت کے عناصر کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ صرف اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر ن لیگ کو کرسی سونپ دی گئی تو وہ آہنی زنجیروں سے بندھی ہوگی اسے کامل اختیارات منتقل نہیں ہوں گے جو پالیسیاں اس وقت چل رہی ہیں وہ نئی حکومت کو جاری رکھنا پڑیں گی۔
مثال کے طور پر معیشت کا جو نیا ماڈل بنایا گیا ہے اس پر من وعن عمدرآمد کرنا ضروری ہوگا۔ زرعی انقلاب کیلئے جو اقدامات کئے جائیں گے انہیں تسلیم کرنا ہوگا اور دیگر معدنی وسائل کے ضمن میں اقدامات ہوں گے نئی حکومت ان میں مداخلت نہیں کرسکے گی۔ اسی طرح پختونخواہ میں تحریک طالبان یا تحریک جہاد پاکستان کی سرکوبی کے لئے جو جنگ ہوگی نئی حکومت اس میں سہولت کار تو ہوگی، اپنے تئیں کوئی کارروائی نہیں کرسکے گی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے لئے سندھ کے دو جزائر پر نظر ہے۔ اگر زرداری نے مراد علی شاہ کا پرانا معاہدہ تسلیم کرلیا تو شاید دوبارہ سندھ حکومت بطور تحفہ ملے ورنہ ایسے اقدامات ہوں گے کہ زرداری جیسا ہونہار کھلاڑی بھی دم بخود رہ جائے گا۔ اگر مرکز اور پنجاب حکومت ن لیگ کو دینا مقصود ہے تو زرداری کا مرکز میں کیا رول ہوگا۔ آیا زرداری کو لمبی چوڑی مخلوط حکومت کا حصہ بنایا جائیگا یا انہیں پاکٹ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا کہا جائیگا۔ ن لیگ کیساتھ مولانا صاحب، جہانگیر ترین بے شمار آزاد اراکین اور ق لیگ کو مخلوط حکومت کا حصہ بنایا جائیگا۔ کراچی کی جو کالی معیشت ہے اسے اپنے ہاتھوں میں لیا جائیگا۔ اسٹیل مل کی زمینوں کو کام میں لایا جائیگا اور سندھ کی ہزاروں ایکڑ اپنی تحویل میں لے کر اسے بھی سبز انقلاب کے لئے استعمال میں لایا جائیگا۔ اس کے ساتھ ہی اگر ن لیگ دو سال اقتدارمیں رہی تو اسے ایک اور توسیع دینا پڑے گی جس کے لئے زرداری پہلے سے تیار ہیں۔ اسی طرح خارجہ اور داخلہ پالیسیاں موجودہ صورت میں جاری رہیں گی۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہ کافی عرصے سے غیر سیاسی علاقہ بنادیا گیا ہے۔ وہاں کی سیاسی جماعتیں سرجھکائے ہر حکم کی تعمیل میں مصروف ہیں۔ اکثر جماعتوں کا پولیٹیکل کریکٹر ختم کردیا گیا ہے اور ان کی حیثیت این جی زو کی رہ گئی ہے۔ البتہ بی این پی مینگل مسنگ پرسنز، طاقت کے استعمال اور نجی جتھوں کی مخالفت کرتی آرہی تھی حالانکہ وہ سسٹم کا حصہ تھی اور خلاف آئین کوئی کام نہیں کررہی تھی اس کے باوجود اسے منظر سے آؤٹ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
جو لوگ راولپنڈی میں تشریف فرما ہیں وہ صرف ایک ہی آپشن پر کام کرتے ہیں یعنی جس کو دشمن قرار جائے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ پی ٹی آئی 2018 میں لاڈلی تھی پھر باجوہ سر نے ایک توسیع کی خاطر اسے معطون قرار دیا جبکہ 9 مئی کے گھیراؤ جلاؤ نے اس کی حیثیت دشمن کی کردی اس کا جو حشر شر کیا جارہا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ اسی طرح اختر مینگل جو سخت لہجہ رکھتے تھے وہ شاید ان کے لئے ناگوار تھا اور خدشہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ پہنچ کر کوئی مسئلہ پیدا کردیں گے اس لئے ان کے ساتھ بھی دشمن جیسا سلوک کیا جارہا ہے حالانکہ مشورہ دیا گیا ہے کہ اختر کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے جس سے بلوچستان کے معاملات خراب ہوجائیں گے۔ اگر حکومت نے اختر مینگل کو الیکشن کا موقع نہیں دیا تو پاکستان کو تسلیم کرنے والی یہ جماعت شاید اپنی موجودہ ہیئت کھودے اور اس کے کارکن بھی باغیوں کی صف میں شامل ہوجائیں۔
نواب شہید کی مثال سامنے ہے وہ 1948 سے سن 2000 تک وفاق کو تسلیم کرتے تھے کئی بار مذاکرات کا حصہ بنے وہ ساحل و وسائل کا معاملہ گفت و شنید کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے لیکن پرویز مشرف کی سرکردگی میں مقتدرہ نے انہیں جان سے مار دینے کا فیصلہ کیا۔ مقتدرہ کا خیال تھا کہ بگٹی ایک شخص ہے اور ان کی موت کا کوئی اثر نہیں ہوگا لیکن 2006 سے اب تک بلوچستان میں آگ پھیلتی جارہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ راولپنڈی کی اس وقت اختر مینگل کے بارے میں یہی سوچ ہو جو نواب شہید کے بارے میں تھی تو سوچنا چاہیے کہ وہ بلوچستان کے مسئلہ میں اپنے ہاتھوں سے شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس وقت بلوچستان میں فیڈریشن کو ماننے والی دو ہی جماعتیں ہیں ایک نیشنل پارٹی اور ایک بی این پی۔ ان کے بعد فیڈریشن کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوگا، اگر یہ خلاء باپ اور دیگر جماعتوں سے پر کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اگر طاقت کا استعمال مسئلے کا حل ہوتا تو بلوچستان اس وقت امن کا گہوارہ ہوتا۔
حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ بلوچستان وفاق کا ایک آئینی یونٹ ہے وہ فلسطین نہیں کہ اسرائیل اسے فلسطین کی طرح ملیامیٹ کردے۔ حکمرانوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے یہی فیڈریشن کے حق میں بہتر ہے۔ اگر طاقت کا استعمال زیادہ کیا گیا یا شورش زدہ علاقوں میں ڈرون حملے کیئے گئے تو یہ تنازعہ مزید شدت اختیار کرے گا اور یہ انسانی حقوق کا عالمی مسئلہ بن جائے گا۔ کیا حکمران چاہتے ہیں کہ بی این پی جیسی وفاق پرست جماعت بھی نواب بگٹی کے نقش قدم پر چلے اور تضحیک سے بچنے کے لئے پہاڑوں کا رخ کرے۔ اسی طرح جو پرامن احتجاج ہورہا ہے کہ وہ مسلح مزاحمت سے وفاق کے لئے بہتر ہے، پرامن احتجاج بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکمران خود ہزاروں نوجوانوں کو مسلح مزاحمت کی طرف دھکیلنا چاہتےہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ وہ بلوچوں کو ایسی جگہ ہٹ کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ اس جارحانہ پالیسی نے کیا رنگ دکھائے وہ پاکستان کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب چند لوگ پہاڑوں کا رخ کرتےتھے اب تو ہزاروں نوجوان خواتین بھی اس کے لئے تیار ہیں۔ اس سے تنازعہ مزید طول پکڑے گا اور مزید شدت اختیار کرے گا۔ کیا یہ اچھا ہے کہ حکمران اپنے ہی لوگوں کے خلاف دشمنوں جیسا سلوک کریں۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کو شمال سے دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا ہے وہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ٹی ٹی پی پہلے اکیلے کارروائیاں کرتی تھی اب تو تحریک جہاد پاکستان نامی انتہا پسند تنظیم بھی سرگرم عمل ہے۔ یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے بجائے کہ پشتونخواہ کے عالم آدمی کی تسلی تشفی کی جائے حکمرانوں نے پرامن تحریک پی ٹی ایم اور سیاسی جماعت این ڈی ایم کے خلاف بھی محاذ کھول رکھا ہے حالانکہ یہ لوگ کافی عرصے سے طالبان کی نظر میں کھٹک رہے ہیں اور ان کے جان لیوا حملوں کی زد میں ہیں۔ یہ کیا پالیسی ہے کہ فیڈریشن کی دو وحدتوں کے خلاف بلاوجہ محاذ کھولا جائے جو ریاست کے 60 فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔
اور آخر میں یہ بات کہ 9 فروری کو میں ایک نیا سیاسی اتحاد بنتے دیکھ رہا ہوں۔ بھٹو دور کے پی این اے طرز کا اتحاد، اس کی قیادت میں انتخابی جھرلو کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوگا جس سے سیاسی عدم استحکام توقع سے زیادہ بڑھے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔