بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر عام انتخابات کے پولنگ کے دن پورے بلوچستان میں پولیس، لیویز اور فوج کے اہلکار تعینات رہیں گے۔
بلوچستان کے الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بلوچستان میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر نہیں اور پولنگ ڈے پر صرف پولیس اور لیویز کے لیے امن و امان کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
’اسی لیے ہم آٹھ فروری کو فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پورے بلوچستان میں پولنگ ڈے کے لیے قائم ہونے والے مجموعی طور پر پانچ ہزار 67 پولنگ سٹیشنز میں سے 2000 کو ’حساس‘ جب کہ اتنی ہی تعداد کو ’انتہائی حساس‘ قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کو ’ایریا اے اور بی‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
’ایریا اے میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے پولیس تعینات ہو گی، جب کہ ایریا بی میں لیویز تعینات ہوگی۔‘
گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع خاران میں ڈپٹی ریٹرننگ افسران کی تربیت کے دوران سکول کے قریب نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا تھا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم وہاں اضافی فورسز اہلکار تعینات کرنا پڑا۔
اسی طرح مستونگ، کوئٹہ، خاران اور تربت میں دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں انتخابی امیدوار اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ گذشتہ دنوں تربت میں الیکشن کمیشن کے ریجنل آفس پر مسلح افراد نے حملہ کیا جس میں ایک پولیس ہلاک ہوا۔
الیکشن کمیشن آفس پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی۔
بلوچستان میں 2018 کے انتخابات میں بھی حالات سازگار نہیں تھے۔ مستونگ کے علاقے درین گڑھ میں انتخابی مہم کے جلسے کے میں خودکش دھماکے میں سراج رئیسانی سمیت درجنوں افراد مارے گئے تھے، جب کہ پولنگ والے دن کوئٹہ میں مغربی بائی پاس پر ایک پولنگ سٹیشن کے قریب دھماکے میں بھی کئی افراد ہلاک ہوئے۔
الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان کے مطابق ’حساس پولنگ سٹیشنز کے حوالے سے بلوچستان پاکستان کے دیگر صوبوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں سکیورٹی تھریٹس بہت زیادہ ہے جب کہ پولیس اور لیویز کی نفری کم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہاں ہر پولنگ سٹیشنز پر پولیس اور لیویز کو تعینات کرنا ممکن نہیں ہے اور اس لیے آرمی کی خدمات لی جائیں گی۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھتے ہوئے شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے۔