الوداع اسلام آباد ، الوداع ! ۔ عزیز سنگھور

165

الوداع اسلام آباد ، الوداع !

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ الوداع کیا اور وہ اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر سمیٹ کر واپس اپنے مادر وطن بلوچستان پہنچ گئے ہیں۔ کوئٹہ پہنچنے پر ہزاروں لوگوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلہ کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ بلوچ مائیں اور بہنیں پنجاب سے خالی ہاتھ واپس بلوچستان پہنچی ہیں ۔ انہیں نا صرف خالی ہاتھ بلوچستان روانہ کردیا گیا تھا۔ بلکہ بلوچ ماؤں اور بہنوں پر تشدد کیا گیا۔ اسلام آباد سرکار نے انہیں قانون کے تحت تحفظ دینے کی بجائے ان کی عزت پر وار کرنے کی کوشش کی ۔ ان کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔ ان کے بلوچی دوپٹے اتارے گئے۔ اس عمل سے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ بلوچستان ایک مقبوضہ سرزمین ہے۔ اور بلوچ دوسری درجے کے شہری ہیں۔ اور یہ تاثر دیا گیا کہ 1948 سے لیکر آج تک بھی بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ اور یہ ہمیشہ کے لئے مقبوضہ رہیگا۔ پنجاب اور بلوچستان کے درمیان ظالم اور مظلوم کا رشتہ ہے۔ غلام اور آقا کا رشتہ ہے۔اور اس ریاست کے فرم ورک میں بلوچ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بلوچ قوم کل بھی غلام تھا اور آج بھی غلام ہے۔ انہیں اگر اس ریاست میں رہنا ہے تو انہیں غلامی قبول کرنا پڑیگی۔

بلوچ خواتین کو 62 دن تک اسلام آباد کی سخت سردی میں راتیں گزارنی پڑیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کے پیارے بازیاب ہوں گے۔ اسلام آباد پولیس کے بدترین تشدد کے بعد بھی ان کے دھرنے پر بندوق برداروں کا پہرہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں۔ بلکہ تارکین وطن ہیں۔ انہیں بار بار یہ کہا جارہا تھا کہ آپ اسلام آباد سے نکل جائیں۔ یہ شہر بلوچ کے لئے نہیں ہے۔ بلاآخر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پنجاب کو خدا خافظ کہہ دیا۔ حالانکہ اسلام آباد سرکار بلوچ لانگ مارچ کے مطالبات تسلیم کرتی تو یہ ریاست کے لئے ایک اچھا موقع تھا۔ جس سے مستقبل میں حکومت اور ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے امکانات ممکن ہوسکتے تھے۔ تاہم ریاستی اداروں نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس سے مذاکرات کے امکانات کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے۔ حکومتی کی پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ اور ریاست کی راہیں جدا ہوگئیں۔ بلوچ اور ریاست کے درمیان فالٹ لائن میں مزید دراڑیں پیدا ہوگئیں۔

اسلام آباد سے لانگ مارچ کی واپسی ناامیدی یا ناکامی نہیں ہے۔ بلکہ بلوچ تحریک ایک نئے باب میں داخل ہوگیا ہے۔ اب تحریک بلوچ خواتین کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ جو موجودہ تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب یہ تحریک بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلے گی۔ عورت اور مرد یک آواز ہونگے۔ دونوں یکجا ہونگے۔ جس سے بلوچ تحریک ایک توانا شکل میں داخل ہونگی۔

دوسری جانب تحریک نے لانگ مارچ نے ریاستی بیانیہ کو ری پلیس کردیا اور بلوچ بیانیے کو ملک سمیت دنیا بھر میں پہنچایا۔ جو تحریک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ناکامی صرف ریاستی اداروں کی ہوئی ہے۔ اب ہر غیر بلوچ کو یہ بات معلوم ہے کہ ریاستی بیانیہ ایک جھوٹ پرمبنی تھا۔ وہ بیانیہ یہ تھا کہ بلوچ دہشتگرد ہیں۔ بلوچ غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ تاہم بلوچ خواتین نے ان تمام بیانیہ کا پردہ پاش کردیا اور یہ بتایا کہ ریاستی ادارے ماورائے عدالت اور ماورائے قانون مرتکب ہورہے ہیں۔ وہ اپنے قانون و آئین کے فرم ورک میں نہیں چل رہے ہیں۔ جو مجرم کو چوبیس گھنٹےمیں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کو پندرہ پندرہ سال تک لاپتہ کردیاجاتا ہے۔ یہ عمل دستور پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔ جس میں تمام ریاستی دارے ملوث ہیں۔ ان کا ایک الائنس ہے۔ جن میں ملٹری، عدلیہ،حکومت، میڈیا، انتظامیہ تک شامل ہیں۔ یہ سب ایک پیچ پر ہیں۔ جو ملک میں انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں۔

ریاست کو معلوم نہیں ہے کہ آج دنیا جدید ٹیکنولوجی اور انٹرنیٹ کی بدولت گلوبل ولیجمیں تبدیل ہوگئی ہے۔ ان کا کوئی بھی منفی عمل چھپ نہیں سکتا ہے بلوچ لانگ مارچ کو پاکستانی میڈیا نے کوئی بھی کوریج نہیں دی۔ میڈیا نے انہیں مکمل بلیک آؤٹ کردیا تھا۔ جبکہ لاپتہ افراد کے کیمپ کے ساتھ سرکاری کیمپ پر میڈیا کی بھرمار تھی ۔ ان کی پریس کانفرنس کو تمام چینلز اور اخبارات میں نمایاں کوریج دی گئی ۔ جبکہ لاپتہ افراد کا کیمپ سوشل میڈیا پر منحصر تھا۔ تاہم عوام کی نظریں لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرف تھیں۔ ان پر مختلف ٹک ٹاک بنائے گئے۔ دوسری جانب اسلام آباد نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ نے اپنا منہ کالا کردیا۔ کلب انتظامیہ نے گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا۔ لاپتہ افراد کے کیمپ کو ہٹانے کے لئے کلب انتظامیہ نے پولیس کو درخواست دے دی۔

ان تمام نیچی حرکتوں کے باوجود سوشل میڈیا پر لاپتہ افراد کی بھرپور کوریج ہوئی۔ سوشل میڈیا پر بچوں اور بچیوں کی دردناک ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔ اسلام آباد سے روانگی کے دوران ایک بچی احتجاجی کیمپ سے اپنے بابا (والد) کی تصویر اتار رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ ان کی آہو ں سسکوں کو سننے والی ریاست سو رہی تھی۔ وہ اس امید سے آئی تھی کہ اسے اس کا بابا مل جائیگا۔ بچی کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بابا نےکوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے مگر ریاست ماں کی بجائے ایک ظالم کا کردار ادا کررہی تھی۔ اس بچی کو لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ دلاسہ دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ہمارا حوصلہ ہماری طاقت ہے۔ یہ ہمارا حوصلہ ہے۔ جو پوری قوم ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ اب ہم بلوچ قوم کی عدالت جائیں گے۔ جہاں ہم اپنا مدعا قوم کے سامنے رکھیں گے۔

بلاآخر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا قافلہ اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچ گیا جہاں ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا جس میں خواتین اور بچیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچ کی بقا یکمشتی میں ہے۔ ریاست، سردار اور ڈیتھ اسکواڈ کا الائنس ہے۔ ہمیں عوامی طاقت کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ ماہ رنگ نے اپنےاستقبال کے لئے آئے ہوئے ہزاروں لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بلوچ عورتوں کے کپڑے اتارے گئے۔ خواتین کو گندی گالیاں دی گئیں۔ اس بے عزتی کو فراموش نہیں کرنا ہے۔ بلوچ خواتین کو دہشتگرد کہا گیا۔ دراصل وہ خود دہشتگرد ہیں۔ ریاست سے بلوچ کی قومی تشخص کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ بلوچوں کو اپنی حفاظت خود کرنا پڑیگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔