‏کیا پارلیمانی انتخابات بلوچ قوم کی دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے؟ – نعیمہ زہری

301

‏کیا پارلیمانی انتخابات بلوچ قوم کی دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے؟

تحریر: نعیمہ زہری

دی بلوچستان پوسٹ

‏پاکستان میں پہلی بار عام انتخابات 1970 میں منعقد ہوئے اور ون یونٹ کا خاتمہ کرکے بلوچستان کو صوبے کا زبانی درجہ دیا گیا۔ لیکن آج تک بلوچستان کو حقیقی معنوں میں صوبہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ جس کی واضح مثال اب تک بلوچستان کے وسائل سے سوائے بلوچستان کے باقی سبھی صوبے مستفید ہورہے ہیں۔ سوئی گیس بلوچستان سے نکل کر پورے پنجاب کی فیکٹریوں میں لوہے پگلوانے کے تو کام آتی ہے لیکن بدقسمت بلوچوں کو دو وقت کی روٹی پکانے کے لئے بھی میسر نہیں۔

‏مملکت خداداد میں ہونے والی پہلی عام انتخابات کے بعد ہی اس بدقسمت صوبہ پر ایک منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر بھٹوازم میں بلوچوں پر فوجی آپریشن کا آغاز کرکے کئی بیگناہ بلوچوں کا قتل عام کیا گیا۔

‏1970 سے لیکر 2018 تک کے نام نہاد انتخابات سے بلوچ قوم و بلوچستانیوں کے نہ تو دکھوں کا مداوا ہوا ہے اور نہ ہی 2024 کے نام نہاد انتخابات سے ہوگی۔

‏روز اول سے اسٹیبلشمنٹ نے بلوچ قوم کو مختلف نواب، سردار، میر و ٹکری، سرکاری ملا، سرکاری سردار و میروں کے ذریعے انتخاب کا ڈھونگ رچاکر بلوچ قوم کو ان کی بنیادی و انسانی حقوق سے محروم کرنے کے لئے نام نہاد ٹولوں کو ان پر مسلط کرتا ہے۔

‏مشرف آمریت کے دور میں بلوچوں پر آپریشن کرکے بلوچ لیڈر اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک بلوچستان میں وقفے وقفے سے مختلف حربوں سے آپریشن جاری و ساری ہے۔ تب سے اب تک بلوچ نوجوانوں، ادیبوں، دانشوروں، شاعروں اور لکھاریوں کو اغوا کرکے بعد میں ان کی تشدد زدہ لاش پھینک دی جاتی ہیں۔ اور ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما ان کی لاشوں پر اپنی گندی سیاست چمکا کر ذاتی مفادات حاصل کرکے بلوچ قوم کو ماورائے عدالت قتل و ظلم و بربریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

‏نوجوان اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر ان کے والدین کو تشدد زدہ لاشیں ہی مل جاتی ہیں۔ سیاسی دکاندار انہی خاندانوں کے گھر آکر سیاسی فاتحہ خوانی کرکے دو چار الفاظ بول کر پھر سے مراعات کے چکر میں پارلیمنٹ کا رخ کرکے بینک بیلنس بنانے نکل پڑتے ہیں۔

‏ملک میں جمہوریت کے نام پر انتخابات کا ڈرامہ رچا کر بلوچوں کو روز بروز سرداروں اور نوابوں کے غلامی میں جھکڑ دیا جاتا ہے۔ سردار، میر و ٹکری اور ملا کے بچے لندن و دبئی بیٹھ کر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں جبکہ بلوچ نوجوان غربت کی چکی میں پس کر بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بےروزگاری کی زندگی گزارتے ہیں اور باقی مختلف ایجنسیوں کے ہتھے چڑھ کر بعد میں انکی تشدد زدہ لاشیں ہی والدین کو نصیب ہوتی ہیں۔
‏پاکستانی انتخابات کی تاریخ دیکھا جائے تو یہ صرف اور صرف غلامی کی طوق کو مضبوط کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
‏عرصہ 30 سال سے بلوچ مائیں اپنی لخت جگروں کے لئے، بوڑھے والدین اپنے فرزندوں کے لئے ، بیویاں اپنے شریک حیات کے لئے، بہنیں اپنے بھائیوں کے لئے مکران تا اسلام آباد روڈوں پر پیدل احتجاج کرتے پھرتے ہیں۔ ریاست اور اس کے سرکاری دلال بلوچ قوم کو ایک بار پھر نام نہاد انتخابات کے ذریعے بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
‏لیکن اس بار بلوچ قوم نے شعور کا ساتھ دینے کی ٹھان لی ہے۔ اب بلوچ کا کوئی بھی شخص ریاست کے آلہ کاروں کے کہنے پر سرکاری انتخابات کا ہر گز حصہ نہیں بنے گی۔

‏اب بلوچ کا ہر بچہ یہ جان چکا ہے کہ یہ انتخابات بلوچ قوم کے زخموں پر نمک چڑھکنے کا ایک طریقہ ہے۔ لہذا اب کوئی بھی بلوچ اس وقت تک ووٹ کا حصہ نہیں بنے گا جب تک مائوں کو ان کے لخت جگر، بہنوں کو ان کے بھائی اور والدین کو ان کی فرزند کلی کیمپوں سے نکال کر صحیح سلامت واپس ان کے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک کوئی بھی بلوچ ان سرکاری سردار، مذہبی ملائوں اور سرکاری چمچوں کے کہنے پر ووٹ کا حصہ نہیں بنے گا۔

‏بلوچ قوم کی ایک ہی پکار ہے کہ ووٹ سے بائیکاٹ ہی ان کی پیاروں کی بازیابی کے لئے کوئی وسیلہ ہوسکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔