ڈاکٹر اکبر مری کی بیٹی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ میرے والد ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں ، جنہوں نے روس سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کیا تھا اور اپنی ہاؤس جاب سول ہسپتال کوئٹہ بلوچستان سے کیا ہے ، اپنے فرائض بلوچستان ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میڈیکل آفیسر کوہلو میں سر انجام دے رہاتھا کہ اچانک وہ ہم سے چھین لیئے گئے ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے دیگر خطوں کی طرح سن 2005 میں کوھلو کاہان کے حالات بھی ناسازگار ہوئے تو کاہان کے مقامی لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔اس میں میری فیلمی بھی کاہان کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے سریاب کوئٹہ منتقل ہوگئے اور میرے والد ڈاکٹر اکبر مری نے 2006 میں اپنی نجی کلینک کا کوئٹہ میں افتتاح کیا اور اسی کلینک میں 20 اپریل 2010 کو دن کے ایک بجے پاکستانی فورسز ایف سی اور پولیس اہلکار کلینک میں آئے، کوئی بھی وارنٹ اور عدالتی حکم نامہ دکھائے بغیر انھیں جبری لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
والد کے ایف سی اور پولیس کے ہاتھوں لاپتہ ہونے کے بعد ہم نے پولیس اسٹیشن میں ایف آر درج کرنے کے بعد مختلف جگہوں پر آواز اٹھانا شروع کیا ۔
انہوں نے کہا کہ اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار احمد کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا جو کہ بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی کیس کو ہینڈل کررہا تھا۔ جس میں میری والد ڈاکٹر اکبر مری سرفہرست تھا اور اس کمیشن نے ہمیں جھوٹی تسلیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ ایک دفعہ پہلے بھی ہم اپنے والد ڈاکٹر اکبر مری کا مدعہ لے کر اسلام آباد آئے مگر بے سود لیکن ہم نا امید اور مایوس نہیں ہوئے ایک دفعہ پھر امید کے ساتھ اسلام آباد آئیں ہیں تاکہ حکام بالا ہماری آواز سن سکے ، 2010 سے اب تک 13 سال گزر گئے ، ہمیں کوئی پتا نہیں اور ہم ہر لمحہ یہی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہمارے والد صاحب بازیاب ہو کر آئیں گے، اور اپنی کمی کے احساس کو ختم کریں گے۔
انھوں نے کہاکہ ہم بہت اذیت و تکلیف میں ہیں ، نجات چاہتے ہیں ۔ہم امید کرتے ہیں موجودہ چیف جسٹس اور اسلام اباد کے حکمران دھرنے میں بیٹھے ہوئے لواحقین کو ناامید نہیں کریں گے ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔