وہ لمحہ جس کا انتظار صدیوں سے تھا ۔ منیر بلوچ

632

وہ لمحہ جس کا انتظار صدیوں سے تھا

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

ریاست کا مکروہ چہرہ ہر مزاحمت کے بعد آشکار ہوتا جارہا ہے اور وہ اپنی حدیں عبور کرکے ایک ایسی کھائی میں گرچکا ہے جہاں وہ پہلے بھی گرچکا تھا لیکن پنجاب اور اسکی مقتدرہ کی شومئی قسمت کہ وہ ایٹم بموں اور فوجی طاقت کے نشے میں مست ہو کر یہ فراموش کرچکے ہیں کہ عوامی طاقت نہ شکست کھاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی بم یا فوج عوام کو شکست دی سکتی ہے لیکن کیا کریں یہ انٹر پاس، عقل سے عاری حوالدار یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔

دنیا کی قومی تحریکوں کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تحریکیں اپنے سفر طے کرکے عوام کی مدد سے اپنی منزلیں طے کرتی ہے۔ مشکلات سامنے آتی ہے، کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور آگے کا سفر طے کیا جاتا ہے۔ بلوچستان بھی گزشتہ ستر سالوں سے پاکستانی ظلم و بربریت کے سامنے تحریک چلا رہی ہے، کبھی تیز اور کبھی سست، لیکن یہ تحریک رکی نہیں اور نہ ہی اس تحریک کے کرداروں نے مشکل حالات کے سامنے سرینڈر کرنے کو ترجیح دی بلکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کی۔

دو ہزار کے بعد بلوچستان میں ریاستی بربریت نے ریاست کو ایک ایسی آگ میں دھکیل دیا جہاں اب اس کے پاس بلوچستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ جن لوگوں کو جبری گمشدہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی یا جن کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا یا جن کے گھروں کو جلا کر انہیں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا آج ان کی نفرت نے اتنی شدت اختیار کی ہے کہ آج اس خطے کا سب سے بڑا دہشت گرد گدھ آج بلوچستان میں اپنی تعفن زدہ لاش کی بدبو کو خود سونگھ رہا ہے اس لئے اپنی موت کو اپنے سامنے دیکھ کر مکمل بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے مجھے مرنا ہے اور اسی موت کی خوف کے وجہ سے وہ سب کچھ کررہا ہے۔

بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضے کے بعد کچھ ایسے مواقع آئے جس سے بلوچ قوم ان سے فائدہ اٹھا کر تحریک کو ایک عوامی مزاحمت میں تبدیل کرسکتی تھی لیکن دانستہ یا نادانستہ ان موقعوں سے استفادہ حاصل نہیں کیا گیا، سیاست اور سیاسی جماعتوں پر پابندی کی وجہ سے ساری توجہ مسلح جدوجہد پر رہی جس کی وجہ سے ریاست پاکستان کی پروپگینڈہ مشینری نے حتی الوسع کوشش کی کہ اس تحریک کو دنیا کے سامنے دہشت گردی کا لبادہ پہنایا جائے لیکن دو ہزار کے بعد تحریک نے ایک نیا رِخ اختیار کیا جب جبری گمشدگی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اس تحریک کو مذید تقویت اس وقت ملی جب ڈنک میں ایک بلوچ خواتین کو نشانہ بنایا گیا تو بلوچ عوام نے برمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے ایک مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھی جو بعد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم کا روپ اختیار کرگئی۔ ملک ناز، کلثوم،حیات بلوچ، کریمہ کی شہادت ایسے لمحے تھے جن سے بلوچ قوم عوامی مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے ان لمحوں کو یادگار بناسکتی تھی لیکن کچھ کمزوریوں کی وجہ سے وہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور بربریت میں اضافے نے بلوچ قوم کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا۔
لیکن سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بالاچ بلوچ کی جبری گمشدگی اور شہادت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ عوام کو ایک ایسا فیصلہ لینے کی طاقت دی جو نہ صرف مزاحمت کا راستہ ہے بلکہ بلوچ قوم کی یکجہتی و مہر و محبت کا راستہ ہے۔ نو دن تربت فدا چوک پر دھرنا، مظاہرہ اور ریلی کے بعد اس مزاحمتی قافلے نے کوئٹہ کا رخ کیا جہاں مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے اس مزاحمتی قافلے کا بھرپور استقبال کیا گیا، راستے میں مختلف طریقوں سے حراساں کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عوامی قافلے اپنے منزل پر پہنچ گئی، اسکے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے عوامی تعاون سے اسلام آباد کا رخ کیا جہاں پختون عوام نے بھرپور استقبال اور حمایت کا یقین دلایا۔ اسکے بعد رکھنی اور ڈیری غازی خان کے عوام نے مزاحمتی قافلے کو خوش آمدید کہا اور یہ قافلہ تونسہ شریف پہنچا جہاں عوامی مزاحمت کی ایسی جھلک دیکھی گئی جس نے پاکستانی مقتدرہ کے خوف کو مزید بڑھاوا دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں مزاحمتی قافلے کو پشتون قوم نے خوش آمدید کہہ کر مکمل حمایت کا اعلان کیا جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سابق ممبر قومی اسمبلی پاکستان علی وزیر اور موجودہ دور کے انقلابی کردار منظور پشتین کی والد اور والدہ نے شرکت کرکے مزاحمت کا پرچم سر بلند رکھا۔ لیکن جب مارچ اسلام آباد پہنچی تو فاشسٹ پنجاب نے اس مزاحمتی قافلے کو روکنے کی کوشش میں بلوچ خواتین، معصوم بچوں اور طالب علموں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا اور انہیں اسلام آباد بدر کرنے کا حکم دیا لیکن بلوچ مزاحمت کاروں نے تشدد کو قبول کرتے ہوئے ،ظلم و جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام آباد سے واپس کوئٹہ جانے سے انکار کردیا جسکی پاداش میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر ماہرنگ ،سیما اور دوسری خواتین کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا کر نامعلوم مقام منتقل کیا گیا جن کی تاحال خبر نہیں ہے۔

اس تشدد کے بعد بلوچستان بھر میں عوام نے باہر نکل کر مظاہرہ کئے اور بلوچستان سمیت کراچی اور ڈیری غازی خان میں مظاہروں کا اعلان کیا جو پاکستانی ریاست کے خلاف اعلان جنگ اور بلوچ قوم کی پاکستان سے بیزاری کی علامت ہے۔

زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو نہایت دلخراش اور اندوہناک ہوتے ہیں لیکن وہ لمحے محبت، قربانی،جذبات، انقلاب اور مزاحمت کے لمحات ہوتے ہیں۔ آج بلوچ قومی یکجہتی ،اپنی زمین کی محبت آپکو پہاڑوں ،سڑکوں اور شاہراوں پر ہر جگہ نظر آرہی ہے۔ نہ صرف اس لمحات نے بلوچ قوم کی آپسی محبت کو عیاں کردیا ہے بلکہ مظلوم پشتون عوام کو بھی بلوچ قوم کے درد کو محسوس کرتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی پر مجبور کردیا ہے۔

بلوچ کی بلوچ زمین سے محبت، مظلوم کی مظلوم سے محبت نے ریاست کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ اس سے خائف ہو کر فاشسٹ پنجابی ریاست نے خواتین شرکا کی ایف آئی آر درج کرلی بلکہ مختلف ہتھکنڈے کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی۔

اس تشدد کے درد کو بلوچ قوم،پشتون قوم اور ہر درد دل رکھنے والا محسوس کررہا ہے اور یہ احساس ہی ایک انقلاب کی نوید ہے اور اس مزاحمتی قافلے نے اس انقلاب کی بنیاد رکھی جسے عوامی انقلاب کہا جاتا ہے اور اس عوامی انقلاب کا انتظار یہ خطہ اور بلوچ سر زمین صدیوں سے کررہا تھا اور آج شہید بالاچ بلوچ کی شہادت اور عوامی مزاحمت نے اس لمحے کو نزدیک تر کردیا ہے اور اس عوامی انقلاب کا نتیجہ پاکستان کی بربادی اور مظلوموں کی آزادی کی نوید ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔