وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5277 دن ہوگئے، بی ایس او پجار کے سابقہ چیرمین زبیربلوچ، ڈاکٹر طارق بلوچ اور مرد خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ اب جب با شعور بلوچ قوم منظم انداز میں اپنی پرامن جنگ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لڑھ رہی ہے یہ تو معرہ باز گماشتہ وکیل بابو ٹیچر بابو اور انکے حواری اپنے وجود کو خطرے میں پاکر جبری لاپتہ افراد کے لواحقین میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور تنظیم کو ہر ممکن ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کبھی اتحادی بن کر بی ایس او کے خلاف بیان بازی کرکے پاکستانی خفیہ اداروں کے ساتھ اپنی وفاداری اور ہمدردیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ کبھی بلوچ پارٹیوں کی کردار کشی کرتے ہیں کسی عام اور سطحی مسئلے پر مشروط حمایت کا ڈھونگ رچاتے ہیں تاکہ انکے اندر مخلص ساتھیوں میں انتشار اور پھوٹ ڈال کر ان میں گھس کر انہیں بددل اور گمراہ کریں لیکن انکی تمام تر مکاریاں اور چالبازیاں خاک میں مل رہی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لوگوں کے کسی مخصوص ٹولے کو ہر گز یہ اجازت نہیں دیتی کہ قابض کے خلاف ایک پرامن جنگ جسکی قیمت بلوچ قوم نے گزشتہ 75 سالوں کی خون اور امنگوں کوستے داموں بیچ کر کھائے اور شہیدوں کے خون کے ساتھ غداری کرے کسی مفاد پرست ٹولے کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستانی ریاست کی قصیدہ خوانی کرنے اور جب ان کو بلوچ کی طرف سے حوصلہ افزا پزیرائی نہیں تو ان کی گماشتوں نے اپنے ذاتی مجلسوں میں سرگوشی کے انداز میں لوگوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ تنظیم اندرونی انتشار کا شکار ہے بلوچوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لئے ان کی یہ ریشہ دوانیاں ناکام ہوئیں۔ اس سے سنگین بات یہ ہے کہ ان جیسے بہت سے افراد جو بلوچ قوم پرستی کے لبادے میں قسم کے دوگانے یا مشترکہ اداکاری کر رہے ہیں۔