لانگ مارچ اور منتظمین کی ذمہ داریاں – کامریڈ وفا بلوچ

169

لانگ مارچ اور منتظمین کی ذمہ داریاں

تحریر: کامریڈ وفا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں اب تک سینکڑوں بلوچ ماورائے آئین و عدالت جبری لاپتہ ہوچکے ہیں اور سیکنڑوں کی مسخ شدہ لاشیں پہاڑوں، میدانوں اور ویرانوں سے ملی ہیں، کچھ بلوچ لاپتہ افراد کی لاشیں کمبوں اور درختوں پر لٹکی ملی ہیں۔ بلوچ قوم اس صدی کے مظلوم اقوام میں شامل ہے جو اس طرح کے انسانیت سوز جبر سے گذر رہی ہے۔

شاید اس سے زیادہ کوئی اور ظلم و تکلیف دنیا میں ایجاد نہیں ہوا ہے کہ کسی گھر سے نوجوان کو اس طرح لاپتہ کرے جس کا کوئی پتہ تک نہیں کہ زندہ ہے یا مرچکا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو سالوں تک اس خاندان کو اذیت میں رکھتا ہے۔

ہزاروں ماؤں کے لخت جگروں کو ریاست پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنے بدنام زمانہ ٹارچر سیلوں میں سالوں سے قید رکھا ہے۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے ان تمام ماؤں پر قیامت طاری ہوتی ہے کہ کہی میرے جگر گوشے کی لاش نہ ہو۔

اب ریاست نے اپنی پالیسیاں تبدیل کردیے ہیں، بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدہ کرتا ہے اور پھر بدنام زمانہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(سی ٹی ڈی)  کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ریاست پاکستان کے خفیہ اداروں نے صرف نام تبدیل کیا ہے لیکن بلوچ نسل کشی پچھلے دو دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔

اب بھی یہ سارا قتل عام ریاستی خفیہ ادارے سی ٹی ڈی کے نام پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔  بلوچستان بھر میں بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ ماؤں، بہنوں اور بزرگوں نے ایک ایسی مزاحمت کی ابتداء کی ہے جس سے جابر ریاست کے ظلم کو کسی حد تک روک سکتے ہیں اگر بلوچستان کے عوام اسی طرح مزاحمتی انداز میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

اگر احتجاجی تحریک صرف وقتی مظاہروں تک محدود رکھا گیا تو پھر کچھ وقت کے نعرے بازیوں کے بعد سب خاموش ہوں گے۔ پھر ظالم ریاست کو موقع ملے گا کہ وہ اسی طرح بلوچ نوجوانوں کو جعلی مقابلوں کے نام پر قتل کردے گا۔

لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ کامیاب احتجاجی سلسلوں کے بعد میرے کچھ گزارشات ہیں جو میں اس تحریر کی صورت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

بلوچ سیاسی مزاحمت کا تسلسل مختلف علاقوں میں جاری ہے لیکن موبلائزیشن کے بعد وہاں کے لوگوں کو مستقبل بنیاد پر بیداری کیلئے کوئی ذمہ داری نہیں دی جاتی ہے۔ اس طرح وقتی طور پر لوگ بیدار ہوں گے لیکن پھر کل ان کی مظاہروں کے بعد ایک خاموشی طاری ہوگی اور اداروں کے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موبلائزیش کو مستقبل بنیاد دینے کی جانب قدم بڑھائیں۔

میری گزارش ہے کہ آپ کی جدوجہد کو میں سلام پیش کرتا ہے لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ جہاں پر بھی خطاب کرتے ہیں تو اپنے خطاب کے اختتام پر لوگوں کو یہ تلقین کریں کہ ہمارا احتجاج صرف ایک واقعہ تک محدود نہ ہو بلکہ تسلسل کے بنیاد پر ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر آئندہ ریاست نے بلوچستان کے کسی کونے میں بھی کسی بلوچ نوجوان کو اس طرح جعلی مقابلوں کے ذریعے قتل کیا تو ہمیں اس کو روکنے کے لئے سیاسی مزاحمت کا راستہ مستقل بنیاد پر اپنانا ہوگا۔

 ہمارے اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ریاستی مظالم کے خلاف مستقل بنیاد پر محاذ بنانے کی جانب پیش رفت کریں۔

ریاست پاکستان نے اپنے ظلم و جبر کو کچھ نادان بلوچوں کے ذریعے بھی جاری رکھا ہوا ہے اور ہمیں مستقبل اپنے لوگوں کی سیاسی موبلائزیشن کرنی ہوگی کہ ریاست کے مظالم کا حصہ بننے اور خاموشی کے بجائے اپنے قوم کے حقوق کی جدوجہد اور مظالم کے خلاف اب بلند آوازوں کے ہمقدم ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔