اے ایف پی کے مطابق مصر نے اسرائیل۔حماس جنگ کے خاتمے سے متعلق بات چیت کےلیے، جمعے کے روز ایک ایسے موقع پر حماس کے ایک وفد کی میزبانی کی جب اسرائیل غزہ پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے اور فوجی طاقت کے ذریعے حماس کی عسکریت قوت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی گولہ باری اور فضائی حملوں سے شمالی غزہ بڑے پیمانے پر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے اور جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں۔
قاہرہ کا جنگ بندی کا منصوبہ کیا ہے
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، حماس کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ قاہرہ کی جانب سے تجویز کیے جانے والے منصوبے میں قابل تجدید جنگ بندی، یرغمالوں کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور آخرکار جنگ کا خاتمہ شامل ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حماس کے ایک عہدےدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ مصر کی جانب سے حماس اور اسلامی جہاد کو جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، وفد فلسطینی دھڑوں کی جانب سے ان کا جواب دے گا جس میں کئی مشاہدات بھی شامل ہیں۔
عہدے دار کا کہنا تھا کہ حماس غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانتیں بھی طلب کرے گا۔
اسرائیل نے ابھی تک قاہرہ کے منصوبے پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو یرغمالوں کے خاندان والوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مصری ثالثوں سے رابطے میں ہیں ۔ ہم ان سب کو واپس لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مزید افراد کا پناہ کے لیے فرار
اسرائیلی فوج اب اپنے زمینی اور فضائی حملوں کا رخ غزہ کے جنوبی اور مرکزی اضلاع کی طرف موڑ رہی ہے جس سے وہاں کے باقی ماندہ رہائشی اپنے گھر چھوڑ کر مصر کی سرحد کے قریب رفح کراسنگ کی جانب جا رہے ہیں جہاں پہلے ہی بے گھر پناہ گزینوں کا ہجوم اکھٹا ہوچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر نے کہا ہے کہ وسطی دیر البلاح اور جنوب میں واقع سب سے بڑے شہر خان یونس کے ارد گرد شدید لڑائی کے نتیجے میں مزید ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور وہ رفح کی طرف جا رہے ہیں جہاں پہلے ہی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں نے اپنے خیمے لگا رکھے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ اسے خوراک، پانی، ایندھن اور ضرورت کے دیگر بنیادی سامان کی شدت قلت کا سامنا ہے۔
اسرائیلی فضائی حملوں کا دائرہ رفح کے علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے اور جمعرات کو وہاں ایک حملے میں کئی ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔
غزہ کی 85 فی صد آبادی بے گھر
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی 85 فی صد کے لگ بھگ آبادی اپنے گھر بار چھوڑ کر جاچکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی بمباری نے شہر کے زیادہ تر حصے کو ملبے کے ڈھیر اور کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔
جنگ محدود کرنے کا مطالبہ مسترد
اسرائیل اپنے قریبی اتحادی امریکہ کے بار بار کے اس مطالبے کے باوجود اپنی فوجی مہم کو آگے بڑھا رہا ہے کہ وہ اپنی جنگ کا دائرہ پھیلانے کی بجائے اسے مخصوص اہداف پر مرکوز کر دے تاکہ شہری جانی نقصان میں کمی ہو سکے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے شہری علاقوں میں داخل ہونے سے پہلے حماس کی سرنگوں اور عسکری ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لیے بھاری بمباری کی ضرورت ہے تاکہ فوجیوں کا جانی نقصان کم سے کم کیا جاسکے۔