بلوچستان، جبری گمشدگی ، مسخ شده لاشیں اور عوامی طاقت – ظہیر بلوچ

158

بلوچستان، جبری گمشدگی ، مسخ شده لاشیں اور عوامی طاقت

تحریر: ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان دو دہائیوں سے جبری گمشدگی، مسخ شده لاشوں اور جعلی مقابلوں میں سلگ رها هے. اس آگ سے بلوچستان کا ہر طبقہ مکمل متاثر هے. ریاست اسکے ادارے اور محکمے شروع دن سے ہی بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور اب سی ٹی ڈی کی شکل میں ایک اور خونخوار درندے کو مکمل سهولیات سے مزین کرکے بلوچ نسل کشی کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ جبکه پارلیمانی سیاست کرنے والے ریاست کی بی ٹیم کا کردار ادا کرکے بلوچ نسل کشی پر نه صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کررهے هیں بلکه جبری گمشدگی کے مسلئے پر انتخابی سیاست کرکے جبری گمشدگی کے زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کررهے ہیں۔

دو ہزار نو سے بلوچستان میں بلوچ تحریک کا راسته روکنے کے لئے جبری گمشدگی کا گھناونا کھیل شروع کیا گیا اور دو ہزار نو کے اوائل میں هی بلوچستان سے جبری گمشده افراد کی مسخ شده لاشیں بھی بر آمد هونا شروع ہوئی. اجتماعی قبروں کی دریافت کے بعد جبری گمشده افراد کو بم باندھ کر اڑانا اور شهید کرکے لوگوں کی رائے کو متاثر کرنے کے لئے پروپگینڈه کرنا ریاست پالیسیوں کی تبدیلی کا شاخسانه هے جبکه جعلی مقابلوں میں جبری گمشده افراد کو شهید کرکے انهیں دہشت گرد ظاهر کرنا ریاست کے چہرے پر ایک ایسا دھبہ هے جو کبھی مٹ نهیں سکتا.

گذشته گیارہ دنوں سے جعلی مقابلے میں شهید هونے والے بالاچ ولد مولابخش کے اہلخانه نے بالاچ کی لاش کے همراه فدا چوک تربت کیچ میں احتجاجی دھرنا شروع کردیا ہے جس میں خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کرکے نه صرف اہلخانه سے اظهار یکجہتی کا مظاہره کیا بلکه پاکستانی ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف بھرپور انداز میں اپنی نفرت کا اظهار کیا. سات دنوں کے بعد بالاچ ولد مولابخش کی لاش کے ساتھ دھرنا دینے کے بعد شهید کی جسد خاکی کو دفن کیا گیا اور تاحال یه احتجاجی مظاہره جاری هے جس میں جبری گمشده افراد کے اہلخانه کے علاوه ریاستی ظلم و جبر کا شکار افراد کی بڑی تعداد شریک ہے. یه شرکت اجتماعی درد و اجتماعی احساس کے علاوه نفرت کا اظهار بھی هے جس کے معنی صاف هے که بلوچستان اور پاکستان کا رشته ظالم اور مظلوم کا هے اور بلوچ پاکستان کے ساتھ مزید نه ره سکتا هے اور نه هی اس ظلم‌ و جبر کو مزید برداشت کرسکتا هے.

بلوچ کہیں بھی آباد هے ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہے. کراچی سے لیکر پنجاب تک اور کوہلو سے لیکر کیچ تک بلوچستان ایک اجتماعی درد سے گزر رها هے اور اس اجتماعی درد کی دوا بلوچ یکجہتی اور مزاحمت کے ذریعے هی ممکن هے.

بلوچستان پر پاکستانی غلامی ظلم و جبر کی بنیاد پر رکھی گئی هے اور اس ظلم و جبر کو روکنے کے لئے بلوچ عوام کو یکجہتی کا مظاهره کرکے مزاحمت کا راسته اختیار کرنا چاهئیے تاکه ظلم‌کی رات ٹل سکے اور بلوچ بحثیت ایک قوم اپنی سر زمین پر ایک آزاد حیثیت سے زندگی گزارنے کے قابل هوسکے.

تعلیم هو یا معشیت، سماج هو یا سیاست بلوچ، مرد هو یا‌ عورت، بزرگ هو یا نوجوان هر طبقه اور هر شعبے میں بلوچ قوم ظلم کی چکی میں پس رهی هے اور جب تک پاکستان بلوچ کی زمین پر موجود هے یه ظلم هوتا رهے گا.

تربت میں جاری احتجاجی دھرنا عوامی طاقت کا اظہار ہے اور اس طاقت کو مزید تقویت فراهم کرنے کی ضرورت هے اور عوامی طاقت کو مزید طاقت عوام کی شرکت هی ممکن بنادیتی هے.‌ بلوچستان میں آباد تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس اجتماعی درد کو محسوس کرکے بھرپور طاقت کا مظاهره کرکے تربت دھرنے کی حمایت کریں اور اس دھرنے میں شرکت کرکے نه صرف ریاست سے اپنی نفرت کا اظهار کریں بلکه ایک‌ ایسا عوامی رد عمل کا اظهار کریں جو همیں متحد کرنے کے علاوه ریاستی سازشوں کو بھی ناکام بنانے کے لئے کردار ادا کریں.

بلوچ قوم‌ کا بنیادی مسله آزادی سے محرومی هے اور آزادی سے محروم اقوام کو هر جگه ان مظالم کا سامنا کرنا‌ پڑتا هے.‌بلوچ قوم یه جان لیں که بلوچ قوم کے اسلاف نے هر ظالم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرکے مزاحمت کا راسته اختیار کیا اور آج بھی بلوچ قوم کو ایسی هی مزاحمت کی ضرورت هے کیونکه مزاحمت هی هماری آزادی کے راستے کو هموار کرسکتی هے. اور آزادی کا طلوع هوتا سورج هی هماری دکھوں کے مداوے کا باعث هوگا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔