افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع چمن میں مقامی قبائل، سیاسی جماعتوں، مزدوروں اور تاجروں کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دینے کے خلاف احتجاجی دھرنا گذشتہ 28 دنوں سے جاری ہے۔
جمعے کو مطالبات کے حق میں چمن میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں بچوں نے شرکت کی اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا۔
شرکا نے بینرز اور پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر پاسپورٹ کی شرط نامنظور کے نعرے درج تھے۔
دھرنے سے دھرنا کمیٹی کے قائدین کے علاوہ بچوں نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ حکومت پاسپورٹ اور ویزے کی شرط واپس لے اور ڈیورنڈ لائن پر دونوں جانب آباد مقامی آبادی کو پہلے کی طرح آمدروفت میں آسانیاں فراہم کی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی سخت شرائط
کی وجہ سے لوگوں کا روزگار اور کاروبار متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم اور صحت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ضلع چمن میں کل جماعتی تاجر اور لغڑی اتحاد کی جانب سے یہ دھرنا 21 اکتوبر سے جاری ہے جس کی حمایت مزدور اور تاجر تنظیموں کے علاوہ ضلع کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔
دھرنے کی قیادت کرنے والے غوث اللہ اچکزئی کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن چمن پر دونوں جانب کے سرحدی علاقوں کے لوگ صرف شناختی کارڈ یا افغان شناختی دستاویز تذکرہ دکھا کر آزادانہ طور پر آتے جاتے تھے۔ اب 70 برسوں میں پہلی بار پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی
ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے کی وجہ سے وہ ہزاروں افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں جو روزگار کے لیے روزانہ اس سرحدی گزر گاہ کو عبور کر کے افغانستان اور پاکستان آتے جاتے تھے۔‘
غوث اللہ اچکزئی نے کہا کہ ’سرحد کے دونوں جانب آباد ہم ایک ہی زبان، نسل اور قوم کے لوگ آباد ہیں ہماری آپس میں رشتہ داریاں ہیں، ہمارے قبرستان اور مساجد تک ایک ہیں۔ حکومتی فیصلوں کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔
دھرنا کمیٹی نے 20 نومبر سے پاک افغان سرحدی شاہراہ کو ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
دھرنے کے قائدین کی پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی بھی اسلام آباد پہنچی ہے جہاں وہ پارلیمنٹرینز اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کر رہی ہے، تاہم اب تک مذاکرات میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔