نگران وزیراعظم پاکستان کے بیانات سے خدشات و تحفظات میں اضافہ ہوا – لواحقین لاپتہ افراد

101

جبری گمشدگی کے شکار عظیم دوست بلوچ، آصف بلوچ، رشید بلوچ، کبیر بلوچ، مشتاق بلوچ، عطاء اللہ بلوچ، سفر علی بلوچ، ممتاز بلوچ اور سیف اللہ رودینی کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا نوٹس لے کر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کردار ادا کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے نگران وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے غلط بیانی اور جبری لاپتہ افراد کے متعلق منفی بیانات و پروپیگنڈوں کے بعد جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی خدشات و تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔

جبری لاپتہ عظیم دوست بلوچ کی بہن رخسانہ بلوچ کہا ہے کہ میرے بھائی کو 3 جولائی 2015 کو گوادر سے لاپتہ کیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔ میں  نے ہر طرح کی ممکن کوششں کی اپنی بھائی کی بازیابی کیلئے مگر آج تک ہمیں انصاف نہیں ملا میں اس ریاست سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں میرے بھائی کو بازیاب کرو، ہم میں اور درد سہنے کی ہمت اب نہیں رہی ہے۔

جبری لاپتہ آصف اور رشید کی بہن سائرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ‏31 اگست 2018 کو جب بھائیوں کو گرفتار کیا گیا اور انکی گرفتاری ظاہر کی گئی اس دن سے لیکر اب تک نہیں معلوم ہمارے بھائی کہاں ہیں؟ ہمیں انکا جرم بھی نہیں بتایا گیا؟ ہم انکی زندگی اور سلامتی کو لیکر بہت زیادہ فکرمند ہیں میرے بھائیوں کو بازیاب کردیں۔

لاپتہ کبیر بلوچ، عطاء اللہ اور مشتاق بلوچ کے لواحقین نے ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبیر، مشتاق اور عطاء اللہ کو منظر عام پر لایا جائے۔

یاد رہے مذکورہ افراد خضدار کے رہائشی ہے، جنہیں 27 مارچ 2009 کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔ انکے جبری گمشدگی کو 15سال مکمل ہورہے ہیں لیکن وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

ان کے خاندانوں نے اپیل کی ہے کہ ہمارے پیاروں کوبازیاب کرکے ہمیں اس طویل انتظار، اجتماعی درد و اذیت سے نجات دلائی جائے۔

جبری لاپتہ سفر علی کی بھتیجی شائستہ بلوچ اپنے چچا کی بازیابی کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے چجا سفر علی گزشتہ دس سال سے جبری لاپتہ ہیں اور ان دس سالوں میں ہم ایک گھٹن بھری زندگی جی رہے ہیں یہ دس سال ہم نے کس طرح گزاری ہے اور اب تک جس اذیت میں ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، سفر علی کے والدین بیمار ہیں ان کا سہارا ریاستی اژدھا نے اپنے زندانوں میں رکھے ہیں۔

بانڑی بلوچ خضدار سے جبری ہونے والے مشکے کے رہائشی ممتاز بلوچ کی بھانجی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا ایک سادہ سا مطالبہ ہے، ہم کوئی عیش و عشرت کا مطالبہ نہیں کررہے ، ہم بس اپنے ماما کی باحفاظت بازیابی چاہتے ہیں۔

لاپتہ سیف اللہ رودینی کی ہمشیرہ فرزانہ رودینی نے 22 نومبر 2013 سے جبری لاپتہ اپنے بھائی سیف اللہ رودینی کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ دس سالوں سے ہمارے گھر کے آنگن نے بھائی کو نہیں دیکھا۔ انکی جبری گمشدگی سے لے کر ابتک ہر چیز ویسے ہی ساکن پڑی ہے ہماری زندگیاں بھی ٹھہر سی گئی ہیں میرے بھائی کو 22 نومبر کو خضدار سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ان دس سالوں میں نہ ہم نے اسے سنا نہ ہی ان کی ہلکی جھلک دیکھی۔