اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفا کو گھیرے میں لے لیا ہےجہاں ڈاکٹروں کے مطابق آخری جنریٹر کا ایندھن ختم ہونے کے بعد پانچ مریض ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں ایک قبل از وقت پیدا ہونے والا بچہ بھی شامل ہے۔
خبر رساں ادارے “ایسوسی ایٹڈ پریس” کے مطابق الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سیلمیا نے گولیوں اور دھماکوں کی آواز کے بیچ فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ “اسپتال میں بجلی نہیں ہے۔ طبی آلات بند ہو گئے۔ مریض، خاص طور پر جو انتہائی نگہداشت میں ہیں، مرنا شروع ہو گئے ہیں۔”
فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ڈائریکٹر جنرل مروان جیلانی نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کو بتایا کہ “غزہ میں صحت کے شعبے پر حملے ہو رہے ہیں۔ الشفا، العودہ، القدس اور انڈونیشیا کے اسپتال بھی بمباری کی زد میں آگئے تھے۔”
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز مغربی اتحادیوں کی طرف سے فلسطینی شہریوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے کے مطالبات کو یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا کہ حماس کے جنگجو عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے الشفا اسپتال کو حماس کی مرکزی کمانڈ پوسٹ کے طور پر پیش کیا ہے، اور کہا ہے کہ عسکریت پسند وہاں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ تل ابیب کا الزام ہے کہ جنگجوؤں نے اس اسپتال کے نیچے وسیع بنکر قائم کر رکھے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کا ملٹری انفرااسٹرکچر غزہ شہر کے اسپتالوں اور محلوں کے درمیان ہے۔
عسکریت پسند گروپ حماس اور اشفا اسپتال کے عملے نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے جمعہ کے روز الشفاء اسپتال پر فائرنگ کی تردید کی تھی اور حماس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہوئے راکٹ داغے جس سے اسپتال متاثر ہوا۔
حالیہ دنوں میں، شمالی غزہ کے جنگی علاقے میں الشفا اور دیگر اسپتالوں کے قریب لڑائی میں شدت آئی ہے اور اشیا کی رسد ختم ہو گئی ہیں۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے جمے کو برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کو انٹرویو دیتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن غزہ میں شہریوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔
انہوں نے غزہ کی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا “وہاں بچے ہیں، خواتین ہیں، وہاں بوڑھے لوگ بمباری کر کے مارے جاتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ اور کوئی جواز نہیں ہے، اس لیے ہم اسرائیل پر زور دیتے ہیں کہ وہ باز آ جائے۔”
خیال رہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی حملوں کے دوران اقوام متحدہ اور حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق ہزاروں مریضوں علاوہ، بڑی تعداد میں فلسطینی لوگوں کے لیے اسپتال محفوظ پناہ گاہ بن گئے تھے۔
ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ڈائریکٹر جنرل مروان جیلانی نے سلامتی کونسل سے کہا کہ وہ غزہ کے اسپتالوں میں محصور عملے، رضاکاروں، ہنگامی طبی ٹیموں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی جانب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کونسل مزید موت اور تکالیف سے بچاؤ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔”
عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریسس نے سلامتی کونسل کے اراکین کو بتایا کہ غزہ کا صحت کا نظام “گھٹنوں کے بل” چل رہا ہے۔ جس میں 36 میں سے 18 اسپتال اور دو تہائی بنیادی صحت کے مراکز کام نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ زمینی صورتِ حال کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ اسپتال کی گزرگاہیں زخمیوں، بیماروں، مرنے والوں سے بھری ہوئی ہیں، مردہ خانے بھرے ہوئے ہیں، بے ہوشی کے بغیر سرجری، دسیوں ہزار بے گھر افراد اسپتالوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، خاندان بھیڑ بھرے اسکولوں میں قیام کر رہے ہیں اور وہ کھانے اور پانی کے لیے بے چین ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعے کو کہا تھا کہ غزہ کی پٹی میں “شہریوں کی حفاظت اور ان تک انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے”۔
نئی دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے حالیہ فوجی توقف مثبت ہیں، لیکن تقریباً کافی نہیں، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں عسکریت پسند حماس گروپ کے خلاف مسلسل جنگ چھیڑنے کے نتیجے میں “بہت زیادہ” فلسطینی ہلاک اور مصائب کا شکار ہو چکے ہیں۔
عسکریت پسند تنظیم حماس کے سات اکتوبر کے اسرائیل پر حملے میں تل ابیب کے مطابق 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جب کہ جنگجوؤں نے لگ بھگ 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
غزہ پر ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیلی جوابی بمباری میں حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 11000 سے تجاوز کر گئی ہے جس میں تقریباً 4500 بچے شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے جمعرات کو کہا تھا کہ اسرائیل شمالی غزہ کے علاقوں میں حماس کے خلاف اپنی فوجی کارروائی میں روزانہ چار گھنٹے کے وقفے پر عمل درآمد شروع کرے گا۔
اسرائیلی فوج اور حماس کی جنگ سے بچنے کے لیے غزہ شہر سے اسرائیل کے مطابق ایک لاکھ لوگ جنوب کی طرف فرار ہو گئے ہیں۔