سیکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں – عدالتی کمیشن کی رپورٹ

182

پاکستان میں مختلف تعلیمی اداروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں اور دیگر الزامات پر قائم کردہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے تردید کے باوجود اس بات کے زبانی اور تحریری شواہد ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں۔

پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے اہلِ خانہ ہی جبری گمشدہ ہونے کے کیسز درج کراتے ہیں۔

سیکیورٹی ادارے بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے اور ان کی تعلیمی اداروں میں پروفائلنگ کی بھی تردید کرتے رہے ہیں۔

کمیشن نے رواں برس فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی۔ لیکن یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آ سکی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ 500 صفحات پر مشتمل ہے۔ وائس آف امریکہ کے پاس دستیاب اس رپورٹ کی فائنڈنگز کے شروع میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو اس بات پر تشویش ہے کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ، ہراسمنٹ اور جبری گمشدگیاں اس انداز میں کی گئی کہ بعض طلبہ کو حراست میں رکھا گیا یا انہیں گرفتار یا اغوا کیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو سماعت کے دوران کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی جس کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے ایک ہفتے میں 55 لاپتا طلبہ کی بازیابی نہ ہونے پر نگراں وزیرِ اعظم، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ دفاع کو عدالت میں طلب کر لیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے وزیرِ اعظم کو طلب نہ کرنے کی استدعا کی گئی جسے جسٹس محسن اختر کیانی نے مسترد کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے سے متعلق ایڈووکیٹ ایمان مزاری کی پٹیشن پر کمیشن تشکیل دیا تھا۔عدالت نے کمیشن کی سربراہی سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کے سپرد کی گئی تھی۔

اس کمیشن کے دیگر ارکان میں سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، سیکریٹری وزارتِ انسانی حقوق علی رضا بھٹہ، ناصر محمود کھوسہ،سینیٹر کامران مرتضیٰ، افرسیاب خٹک، پروفیسر ڈاکر اسما فیض، سینیٹر مشاہد حسین سید، اسد عمر اور سینیٹر رضا ربانی شامل تھے۔

کمیشن کے سربراہ اختر مینگل نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزیرِ اعظم اور دیگر ذمہ داران کو بلانے کا حکم بلوچ عوام کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ان کے بقول کمیشن نے اپنی رپورٹ فروری میں جمع کرائی تھی۔ پاکستان کی عدلیہ کو بلوچستان کے عوام کو انصاف دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

کمیشن کی رپورٹ میں کیاہے؟

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنا، نسلی پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کے اقدامات بلوچستان میں نیشنل سیکیورٹی کے نام پرکیے جانے والے آپریشن کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ یہ آپریشن کئی سال سے جاری ہے۔ اس آپریشن کے متاثرین میں خواتین، بچے، بزرگ، سیاسی ورکرز، صحافی، استاد، طالب علم، ڈاکٹرز، وکلا، شاعر اور مصنف بھی شامل ہیں۔

کمیشن کے مطابق بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور خاص طور پر آرٹیکل 55 کی خلاف ورزی ہے جس میں عالمی سطح پر بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کا تحفظ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے بلاوجہ تردید میں وقت ضائع کیا گیا کہ وہ بلوچ طلبہ کی ہراسمنٹ اور جبری گمشدگیوں میں شامل نہیں ہیں۔ در حقیقت بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے مسئلے کا ہی حصہ ہے۔جب تک بلوچستان کے لا پتا افراد کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک کمیشن کو یقین ہے کہ مسنگ اسٹوڈنٹس کا معاملہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہے گا۔

حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کو ایک عرصے سے عسکریت پسندی،انتہا پسندی اور مسلح مزاحمت کا سامنا ہے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔اس صورتِ حال کو ریاست مخالف عناصر استعمال کر رہے ہیں اور اس سے نوجوان اور طلبہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

کمیشن کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کی بنیادی وجہ وفاق اور جمہوری نظام کی کمزوری ہے اور اس کی جگہ حب الوطنی اور قومی مفاد کے نام پر غیر آئینی نظام کو فوقیت دی جا رہی ہے۔بلوچستان کی اصل قیادت کو سیاسی عمل سے دور رکھا جاتا ہے جس سے سیاسی سماجی رابطوں میں کمی اور حکمرانوں کے خلاف بد اعتمادی سامنے آتی ہے۔ صوبائی حکام اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار محدود ہے اور وفاق کی طرف سے آنے والے اداروں کو زیادہ اختیار دیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں تعلیمی ادارے شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور تمام 11 اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ایچ ای سی کی طرف سے محدود مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے بلوچ طلبہ کو قبول نہیں کیا جاتا۔ تعلیمی نصاب میں بلوچ ثقافت اور تاریخ کو جگہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے ملک بھر میں اجتماعیت کو فروغ نہیں ملتا۔

رپورٹ کے مطابق منتخب طلبہ یونینز نہ ہونے ،غیرنصابی سرگرمیوں اور آزادیٴ اظہارِ رائے پر پابندی کی وجہ سے طلبہ میں سیاسی شعور کے بجائے خوف پیدا ہوتا ہے۔یونیورسٹیوں کو خودمختاری نہیں دی جاتی اور کیمپس میں سرویلنس اور اسکروٹنی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یونیورسٹی انتظامیہ کا کنٹرول نہ ہونا ہے اور اس کی وجہ سے ایک خوف کا ماحول یونیورسٹیوں میں بنتا ہے۔بلوچستان یونیورسٹی میں سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کی وجہ سے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے اور بغیر اجازت ہونے والے احتجاج کو یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر روکا جاتا ہے۔ وائس چانسلر کی سرکاری رہائش گاہ پر ایف سی کے ایک افسر کا کئی برس سے قبضہ اس دکھ بھری زمینی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ بیشتر سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی خواہش کہ وہ نسلی پروفائلنگ اور بلوچ طلبہ کے جبری لاپتا ہونے کو کنٹرول کریں۔ایسے واقعات ہونے پر تعلیمی اداروں کے حکام کا کردار صرف آفیشل رپورٹنگ اور رسمی کارروائیوں تک محدود ہوتا ہے۔

کمیشن کا رپورٹ میں مزید کہنا ہے کہ طلبہ ، اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ سامنے آیا کہ ان میں بالخصوص یونیورسٹی آف بلوچستان میں بیگانگی روزبروز گہری ہوتی جا رہی ہے اور بلوچ طالب علم سیاسی اور عسکری تنازعات میں پھنس کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ طلبہ جو جبری لاپتا تھے جب واپس آئے تو وہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار تھے۔انہیں غیر انسانی سلوک کا سامنا تھا جس کی اذیت کا انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو تمام عمر سامنا کرنا پڑے گا۔اس بارے میں حکومت کی طرف سے ان کی زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ان افراد کی بحالی یا اہلِ خانہ کو کسی قسم کے معاوضہ کی ادائیگی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ 2021 میں یونیورسٹی آف بلوچستان سے غائب ہونے والے دو طالب علم آج تک بازیاب نہیں ہوسکے۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے وزارتِ داخلہ، دفاع ، انسانی حقوق ،کمیشن برائے جبری لاپتا افراد،متاثرہ خاندانوں اور طلبہ تنظیموں کو مل کر مکمل ڈیٹا بنایا جانا چاہیے تھا۔ تاکہ ہر طالبِ علم کے حوالے سے تمام اداروں کے پاس مکمل تفصیلات موجود ہوں۔

رپورٹ میں اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علموں سمیت دیگر بلوچ طلبہ کی حاضر سروس فوجی افسر کی طرف سے پروفائلنگ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس پر انکوائری بھی کی گئی جس میں یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے فوجی افسر کو سہولیات دی گئیں۔ اس بارے میں یونیورسٹی انتظامیہ کا کردار نامناسب اور غیراطمینان بخش تھا۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے حکومت کی طرف سے مختلف کمیٹیاں اور کمیشن بننے سے حکومتی وسائل ضائع ہو رہے ہیں اور مطلوبہ نتائج کوئی بھی کمیٹی یا کمیشن حاصل نہیں کررہا۔سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کمیشن اس کی مثال ہے جس کے بارے میں مختلف دھرنوں پر بیٹھے لاپتا افراد کے لواحقین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کمیشن کے مطابق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے بلوچ طلبہ اور عوام کی پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ پاکستان پینل کوڈ میں اغوا،غیرقانونی حراست کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن جبری طور پر لاپتا کیے جانے کے حوالے سے قانون موجود نہیں۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں سے متاثرہ افراد کے لواحقین محدود مالی وسائل رکھتے ہیں اور کوئٹہ میں کئی سال سے شدید مشکل حالات میں دھرنا دے رہے ہیں۔ لیکن حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے اس معاملے پر ردِ عمل مایوس کن ہے۔ متاثرہ افراد کے لواحقین کو بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے کوئٹہ آکر اپنی شکایت درج کروانا مالی طور پر ایک مشکل عمل ہے۔

لاپتا افراد کے معاملے میں جمع کرائی گئی کئی رپورٹس کو آج تک عام نہیں کیا گیا۔ کمیشن نے خضدار کے توتک علاقے میں اجتماعی قبروں کے حوالے سے رپورٹ مانگی تھی جو اس کمیشن کی طرف سے رپورٹ جمع کرانے تک نہیں ملی۔

کمیشن کے مطابق ممبران نے سدرن کمانڈ کے کورکمانڈر سے ملنے کی کوشش کی تھی لیکن بارہا کوشش کے بعد بھی یہ ملاقات نہیں ہوسکی۔ افسوسناک امر ہے کہ اس کمیشن کے کام کے دوران بھی بلوچ طلبہ اور عام لوگوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔

اپنی فائنڈنگ رپورٹ کے اختتامی نکتہ میں کمیشن کا کہنا تھا کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کے حل کے لیے سیاسی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل کے بجائے صرف عسکری طریقے سے یہ مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں۔

کمیشن کی سفارشات

کمیشن نے 22 نکات پر مشتمل اپنی سفارشات بھی عدالت میں پیش کی ہیں جن میں اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی اور پروفائلنگ کو نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ سمجھا جائے اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے مطابق وزیرِ اعظم کی طرف سے اسے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں لایا جائے۔ کیوں کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی شہری کی آزادی اور زندگی کا تحفظ کیا جائے۔ اگر کوئی ریاستی ایجنسی اس کے بر خلاف کام کرتی ہے تو یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔

یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کے خاتمے کے لیے سچ بولتے ہوئے پارلیمان کو فیصلوں کا مرکز بنایا جائے اور اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں جن میں حکومت، فوج اور متعلقہ ادارے فوری طور پر بلوچ طلبہ کو بازیاب کرائیں۔

رپورٹ کے مطابق تمام لاپتا طلبہ کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مستقبل میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔

تجاویز میں شامل ہے کہ متاثرہ افراد کے لواحقین سے رابطہ رکھا جائے۔ تعلیمی اداروں بالخصوص بلوچستان کے اداروں میں اسکروٹنی کا عمل ختم کیا جائے۔ سیکیورٹی تھریٹس کا مقابلہ کرنے کے لیے جبری گمشدگیوں کے بجائے فئیر ٹرائل کا حق دیا جائے ۔

کمیشن نے تجویز دی ہے کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے جمہوری ماحول کو فروغ دیا جائے۔ فیڈریشن کی مضبوطی کے لیے اہم نوعیت کی فیصلہ سازی میں بلوچستان کو شریک کیا جائے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کے حقیقی نمائندوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں۔

رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت سیکیورٹی ایجنسیوں کے کردار اور احتساب کے لیے پارلیمانی نگرانی کا نظام وضع کرے۔ جبری گمشدگی کو جرم قرار دیتے ہوئے تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے پر پابند کیا جائے۔

تجویز میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت حراستی مراکز کے حوالے سے پالیسی وضع کرے اور انہیں قانون کے دائرے میں لے کر آئے۔وزارتِ داخلہ بلوچ طلبہ اور دیگر گمشدہ افراد کا مکمل ڈیٹا بیس تیار کیا جائے۔ وفاقی حکومت اب تک جوڈیشل اور حکومتی سطح پر بننے والے تمام کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپورٹس کو بھی عام کرے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت بلوچ طلبہ کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ملازمتوں کے بھی یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔