بلوچ قوم پرست رہنماء میر جاوید مینگل نے کہا ہے کہ جبری الحاق کے بعد سے بلوچ نسل کشی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، تربت، خضدار میں حالیہ جعلی مقابلے اور ان مقابلوں میں جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کا قتل دراصل قابضین کی بلوچ قوم سے نفرت کا اظہار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کا نام ریاست اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں آئی ایس آئی اور فوج براہ راست ملوث ہیں۔ وہ بھیس بدل کر بلوچ نسل کشی کرتے ہیں، بعض اوقات ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے نوجوانوں کو اجتماعی قبروں میں دفناتے ہیں تو کبھی سی ٹی ڈی جیسے ڈیتھ اسکواڈ بنا کر نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں مار دیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج اور انٹیلیجنس اداروں کے سامنے عدلیہ کی کوئی وقعت نہیں، بالاچ بلوچ کو عدالت میں پیش کیا گیا اور بعد ازاں جعلی مقابلے میں مار دیا گیا اور عدالت کے حکم کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی اور لواحقین پچھلے پانچ دنوں سے لاش کے ساتھ انصاف کے لئے دھرنا دے کر بیھٹے ہوئے ہیں، انہیں ریاستی جبر کے ساتھ بارش اور موسمی دباؤ کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاؤہ بلوچ طلباء کی گمشدگی اور ہراساں کرنے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایجنسیوں کے آلہ کار وزیراعظم کو طلب کیا تھا تاہم انہوں نے عدالتی احکامات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔
میر جاوید مینگل نے کہا کہ پاکستان کے پارلیمانی اور عدالتی نظام کا دنیا کے دیگر مہذب ممالک سے موازنہ کرنا فضول ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور عدلیہ فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ماتحت ہیں۔ پاکستان کے جمہوری نظام میں حقوق لینے کا دعویٰ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ پارلیمنٹ کاروبار اور ٹھیکیدار بنانے کی ذریعہ بن چکی ہے۔ ہمارے بزرگ پارلیمنٹ میں گئے اور وہاں استعمال ہونے کے بجائے پارلیمنٹ کو بلوچ قومی حقوق کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں انہیں بھی مایوسی ہوئی، وہ جان چکے تھے کہ پنجاب کی اکثریتی پارلیمنٹ میں بلوچوں کے قومی حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں جس طرح سیاست دانوں کی منڈیاں سجی ہیں اور جس طرح بڑے بڑے سردار، نواب ضمیر بیچ رہے ہیں، مویشی منڈیوں میں بھی ایسا نہیں ہوتا، وہاں بھی جانوروں کی خرید و فروخت کا ایک اصول ہے، پیسے کا لین دین چادر کے نیچے ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں تو خرید و فروخت سر عام ہوتی ہے۔ اور ضمیر فروخت فخریہ انداز میں کی جاتی ہے، خریدار اور ضمیر فروش ایک دوسرے کو گلے لگا کر خوش آمدید کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں لوگ بلوچستان کے لوگوں کے اصول، خلوص اور بہادری کی مثالیں دیتے تھے، آج پنجابی بھی انہی ضمیر فروش سیاستدانوں کی وجہ سے بلوچوں کو طعنے دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک بلوچ اپنی زمین اور اپنے وسائل کے مالک نہیں بن جاتے وہ غلامی اور استحصال کا شکار رہیں گے۔ بلوچ عوام کو خیرات کی بجائے حق ملکیت اور غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے۔ بنگلہ دیش کو آج دیکھیں وہ آج معاشی حوالے سے کہاں پہنچ چکا ہے، جب وہ پاکستان میں شامل تھے انہیں پنجابی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، اور افغانستان کو بھی دیکھیں جب وہاں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی مداخلت تھی، وہ خانہ جنگی اور پسماندگی کا شکار تھے۔ آج انہوں نے پاکستانی فوج کی مداخلت ختم کر دی ہے تو ان کی معیشت بھی بہتر ہو رہی ہے۔ خلیجی ممالک کے لوگ اپنی زمین اور وسائل کے خود مالک ہیں، ان کی ترقی آج دنیا میں ایک آئیڈیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہونے کے باجود بلوچ قوم غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ان کے وسائل سے ایک بالادست صوبہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسی طرح سندھ و خیبرپختونخواہ کے وسائل پر بھی وہ قابض ہے۔