بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک ہی ہفتے میں سات بلوچ نوجوانوں کو اپنے زندانوں سے نکال کر قتل کرکے ریاست پاکستان نے بلوچ قوم کو کھلی پیغام دی ہے کہ یہی غلام کی زندگی کی قیمت ہے اور قبضہ گیر جب اور جیسے چاہے قتل کرکے کسی ویرانے یا لبِ سڑک پھینک سکتاہے ، اسے مقابلے کا نام دے سکتاہے ، جھڑپ میں مارے جانے کا شوشہ چھوڑ سکتاہے کیونکہ اس ریاست کے لیے بلوچ ایک انسان نہیں بلکہ انسانی حقوق سے محروم محض بے مول غلام ہے اور اس کی موت و زندگی ریاست پاکستان کی صوبداید پر ہے۔ وہ چاہے تو چند سالوں تک غلامانہ اور ذلت بھری زندگی کا حق عنایت کرے، نہیں تو گھر سے اٹھاکر مہینوں یاسالوں تک کسی زندان کی تاریک ٹارچرسیل میں قیدکردے یا گولیوں سے چھلنی کرکے لاش پھینک دے۔
انہوں نے کہا ریاست پاکستان طاقت کے نشے میں دھت ہے اورمست فیل کی طرح بلوچ کو روند رہا ہے اور بلوچ کی لہو دریا کی مانند بہا رہا ہے۔ ریاست شایدسمجھتی ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ، کوئی مقابلہ کرنے والا نہیں ، وہ ایٹمی طاقت ہے ، دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے لیکن ریاست یہ سمجھنے میں غلطی کر رہی ہے کہ لہواپنے آپ میں طاقت رکھتا ہے۔ لہو اپنے قاتل کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور تاوقتیکہ اسے منطقی انجام تک نہ پہنچائے۔ بے شک آج بلوچ کمزور ہے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا ہے لیکن ہم تاریخ کو بدل رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی قوم کی عوامی مزاحمت کی کمان عورتوں نے سنبھالی ہے۔ عورت جہاں خالق ہے، انسانی بقا کا ضامن ہے ، ممتاکے جذبے سے لبریز ہے۔ عورت کے لیے اپنی جگر گوشہ (فرزند) کائنات میں سب سے بڑی پیاری ہوتی ہے۔ اس کے معمولی سی تکلیف پر رات آنکھوں میں گزارتی ہے۔ بیٹے کی راحت کے لیے زندگی کے تمام مشکلات سے مدمقابل ہوتی ہے لیکن جب عورت عظیم مقصد کے لیے مزاحمت کااٹل فیصلہ کرتی ہے تواپنے جگرگوشے کو مقصدکے لیے قربان کرنے سے نہیں ہچکچاتی ہے۔ اس کی شہادت پر لوریاں گاتی ہے۔ حتٰی کے موت کے سفر پر اپنی نیک دعاؤں کے ساتھ روانہ کرتی ہے ۔
دل مراد بلوچ نے کہا ریاست پاکستان کثیرالجہتی مزاحمت کے سامنے شکست سے دوچار ہوچکا ہے ۔ عوامی مزاحمت کے کمان سنبھالے بلوچ عورت کے اٹل فیصلے کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست بلوچ نسل کشی اور قومی تحریک کو کچلنے میں حکمت عملیاں بدلنے پر مجبور ہے کہ شاید نئی حکمت کارگر ہو لیکن کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو پا رہی ہے۔ کل تک بلوچ نوجوانوں کی مسخ لاشیں پھینکتا تھا۔ آج جعلی مقابلوں کے نام پر نوجوانوں کو قتل کر رہا ہے اور فوج کے بجائے سی ٹی ڈی یا مقامی فورس کا نام استعمال کر رہا ہے تاکہ ریاستی باقاعدہ فوج (ریگولر آرمی) پر الزام نہ آئے۔ لیکن بلوچ کی لہوچیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرا قاتل ریاست پاکستان اور ریاستی افواج ہیں۔ آج چوکوں ، چوراہوں پر لاشوں کے ہمراہ عرش چھیرتی بلو چ عورت کی فریاد کرہ ارض کے کونے کونے میں زندہ انسانوں تک یہ پیغام پہنچا رہی ہے۔ “ہماری قاتل پاکستانی ریاست ہے، خواہ اسے کوئی بھی نام دے ، اسے کسی بھی شکل میں انجام دے لیکن ہم قاتل کو پہچان چکے ہیں۔ اب ہم بہکاوے میں نہیں آئیں گے“۔
بی این ایم کے سیکریٹری جنرل نے کہاہم جانتے ہیں کہ ہمیں آزادی کے لئے بڑی قیمت چکانی ہے اور اس درندہ ریاست کے مقابلے میں شاید کچھ زیادہ ہی قیمت ادا کرنا پڑے لیکن ریاست پاکستان قوموں کی مزاحمت کی تاریخ سے نابلد ہے۔ جب قومیں مزاحمت کا فیصلہ کرتی ہیں تو وہ لہو کا دریا پار کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے ہیں۔ ان بیس سالوں میں بلوچ قوم یہ ثابت کرچکی ہے کہ مزاحمت ہی میں قومی زندگی کا راز مضمر ہے اور قومی مقصدکے حصول تک مزاحمت کا علم بلند رہے گا۔