بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی ریاست کے حق میں اچھا فیصلہ نہیں ہے۔ تربت میں احتجاج

309

ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدہ کیے گئے افراد کے لواحقین نے پیر کو تربت میں ریلی نکال کر احتجاج کیا اور شھید فدا چوک پر مظاہرہ منعقد کرکے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرے میں انسانی حقوق کمیشن کے ریجنل کواڈینٹر پروفیسر غنی پرواز اور حق دو تحریک بلوچستان کے بانی سربراہ مولانا ہدایت الرحمن سمیت آل پارٹیز کیچ اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے شرکت کی اور خطاب کیا۔

ریلی کا انعقاد سماجی شخصیت اور حق دو تحریک کے رہنما یعقوب جوسکی نے کیا تھا۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے یعقوب جوسکی کی سربراہی میں مختلف علاقوں سے لواحقین نے آکر شرکت کی جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، ریلی کا آغاز تربت پریس کلب سے کیا گیا جس کی قیادت لاپتہ افراد کے خواتین فیملی ممبران کے علاوہ ایچ آر سی پی مکران کے ریجنل سیکرٹری پروفیسر غنی پرواز، یعقوب جوسکی، آل پارٹیز کیچ کے کنوینر سیدجان گچکی، بی این پی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر غفور، خان محمد جان، تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست و دیگر کررہے تھے۔

شرکا نے لاپتہ افراد کے تصاویر اور بینرز و پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے، انہوں نے فدا شھید چوک پر پہنچ کر جلسہ کیا۔

جلسے سے حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی ریاست کے حق میں اچھا فیصلہ نہیں ہے، اس سے نفرتوں میں اضافہ اور دوریاں پیدا ہوں گی جو لوگ یہ کام کررہے ہیں وہ اس ریاست کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ نہتے بلوچ نوجوانوں کا اغوا، ان کا قتل اور تشدد قابل قبول نہیں ہے اگر یہ پالیسی ترک کرکے ہمیں عزت سے جینے نہیں دیا گیا تو پھر ہم سے گلہ بھی کرنا جائز نہیں ہے۔

ریلی سے ایچ آر سی پی کے ریجنل کوارڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز نے خطاب کیا اور کہاکہ ریاست کے اندر شہریوں کا اغوا اور تشدد و مسخ لاشوں کا پھینکنا نیک شگون نہیں اور نہ ہی آئین اور قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے جبری گمشدگی ریاست کے قوانین میں ایک جرم ہے لہذا اس سے گریز کرکے تمام جبری گمشدہ افراد فوری بازیاب یا عدالتوں میں پیش کیے جائیں اور ان پر قانونی طریقہ کار کے مطابق عمل کیا جائے۔

حق دو تحریک کے رہنما یعقوب جوسکی، آل پارٹیز کیچ کے کنوینر سید جان گچکی تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزارِ دوست اور لاپتہ بالاچ اقبال، جہان زیب، صابر علی، ظریف بلوچ، عابد بلوچ، عدیل و دیگر کی بہنوں اور رشتہ داروں نے بھی خطاب کیا۔

انہوں نے کہاکہ اگر لاپتہ کیے گئے افراد میں سے کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں ریاست کے وضع کردہ قوانین کے مطابق سزا دی جائے، کسی کو اغوا یا جبری لاپتہ کرنا انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے عدالتوں کو چاہیے کہ وہ اس کے خلاف ایکشن لیں کیونکہ انصاف کے ادارے عدالتیں ہیں اگر عدالتیں جبری گمشدگی کو روکنے میں کردار ادا نہیں کرتے تو یہ اس ریاست کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔

انہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کا دکھ وہی لوگ سمجھتے سکتے ہیں جن پر یہ غم گزارا گیا ہے ہم نہ راتوں کو سو سکتے ہیں نا ہی دن میں آرام آتا ہے ہمارے پیاروں کو لاپتہ کرکے لواحقین کو اجتناسزا دی جارہی ہے اگر ہمارے پیارے مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے وہاں ان کا جرم ثابت کیا جائے ہمیں بھی معلوم ہے کہ عدالتوں کے فیصلے کہاں سے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ریاست کو اپنی عدالتوں پر بھروسہ نہیں ہے جو افسوس کا مقام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر طرح کے پرامن اور جمہوری جدوجہد سے دست بردار نہیں ہوں گے۔