بلوچستان جبری گمشدگیاں وجعلی مقابلے: کوئٹہ میں مظاہرہ

111

سرفراز بگٹی جیسے متنازعہ شخص کی قیادت میں ایک اور کمیٹی قائم کرنا لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے- مظاہرین

کوئٹہ احتجاج میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں، لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی تنظیموں کے ارکان سمیت طلباء شریک ہوئے اور لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بلوچستان میں “سی ٹی ڈی “ کی جانب سے جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا-

احتجاج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیا گیا جہاں مظاہرین نے لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے تھے-

کوئٹہ احتجاج کے شرکاء کا اس موقع پر کہنا تھا حالیہ دنوں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو مکمل طور پر روک دیاگیا ہے جبکہ اسی کے ساتھ مزید افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے سمیت لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ تشویش ناک عمل ہے ہم پاکستانی عدلیہ اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے کیسز کو سنجیدہ لیتے ہوئے انکے حل کے لئے اقدامات کریں-

کوئٹہ مظاہرین نے نگران حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ایک اور کمیٹی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے-

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ نے کہا نگران وفاقی وزیر سرفراز بگٹی کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں حکومت لاپتہ کی بازیابی میں سنجیدہ نہیں ہے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین اقوامی برادری کو دھوکہ دینے کے لیے ہر حکومت ایک کمیشن بناتی ہے۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ اب لاپتہ افراد کے حوالے سے کیمٹی ایسے شخص کی سربراہی میں بنائی گئی ہے جس نے ہمیشہ جبر کی بات کی ہے اور بلوچستان میں جو ظلم و جبر ہورہا ہے انہوں نے ہمیشہ اس کی حمایت کی ہے-

نصراللہ بلوچ نے کہا سرفراز بگٹی جیسے متنازع شخص سے کیسے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مثبت پیش رفت کی توقع رکھ سکتے ہیں اگر حکومت لاپتہ افراد کے بازیابی کے حوالے سے مخلص ہے تو 2010 میں لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن کے 2013 کے رپورٹ اور گزشتہ حکومت میں سردار اختر جان کے سربراہی میں بنے والے کمیشن کے سفارشات پر عمل درامد کرائے-

مظاہرین کا کہنا تھا بلوچستان میں دھائیوں سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس تمام دؤرانیہ میں مختلف حکومتیں آئیں اور ان سب نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا وعدہ کیا اور کمیٹیاں قائم کئے گئے تاہم بجائے لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے مزید افراد کو لاپتہ کیا جارہا ہے اور ابتک ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان سے لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے-

انہوں نے کہا اس سے قبل لوگوں کو لاپتہ کرکے ٹارچر سیلوں میں قتل کے بعد مسخ شدہ لاشوں کے صورت میں جنگلوں اور پہاڑوں میں پھینکا جاتا تھا یا اجتماعی قبروں میں دفن کیا جاتا البتہ سی ٹی ڈی کی شکل میں ایک بلوچ نسل کش فورس بناکر لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے اور ابتک درجنوں ایسے افراد کو سی ٹی ڈی نے قتل کیا ہے جو پہلے سے زیر حراست یا جبری گمشدگی کا شکار تھیں-

کوئٹہ مظاہرین نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے قائم کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں عالمی ادارے اور پاکستان کا سنجیدہ شہری اس غیر اخلاقی عمل کی مخالفت کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی میں کردار ادا کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو انصاف فراہم کریں-

مظاہرین کا مزید کہنا تھا بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے سلسلے نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے سالوں سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی واپسی کو ترس رہے ہیں ریاست لوگوں کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے لیکن پاکستان بلوچ نسل کشی میں ملوث ہے جس کے خلاف ہماری مزاحمت اس جبر کی مکمل خاتمے تک جاری رہیگی-