بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ملک نصیر احمد شاہوانی نے وڈھ کی کشیدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی اور پارٹی سربراہ کو منظر سے ہٹا کر انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے اپیکس کمیٹی میں کئے جانے والے فیصلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت دونوں فریقین کے ساتھ رابطہ کرکے بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کے لئے ڈائیلاگ شروع کریں اور بنائی گئی کمیٹی کو فعال بنایا جائے۔
وڈھ اور بلوچستان کی صورتحال کو خراب کرنے کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 15 اکتوبر کو بلوچستان بھر میں خواتین اور بچوں کے مظاہرے اور 18 اکتوبر کو صوبہ بھر میں مظاہرے، 20 اکتوبر کو شٹر ڈاؤن اور 26 اکتوبر کو پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار جمعرات کو دیگر رہنماؤں موسیٰ بلوچ ، غلام نبی مری، شکیلہ نوید دہوار، ٹکری شفقت لانگو، ساجد ترین ایڈووکیٹ، چیئرمین جاوید بلوچ اور دیگر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ وڈھ کی کشیدہ صورتحال گزشتہ تین ماہ سے برقرار ہے حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے حالات کی بہتری کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گے جس کی وجہ سے وڈھ کے حالات آج بھی انتہائی کشیدہ ہے اور کاروبار زندگی بھی مفلوج ہے وڈھ کے معاملے کو جان بوجھ کر دو فریقین کا زمین کا اور سیاسی مسئلہ قرار دیا جارہا ہے حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں یہ مسئلہ بی این پی کے بلوچستان اور لوگوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے پارلیمنٹ میں اور باہر واضح موقف کے حوالے سے ہے تاکہ پارٹی اور اختر مینگل کو سیاسی عمل سے دور رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ایجنڈے میں وڈھ کے مسئلے کو بھی شامل کیا گیا ہے اور دونوں فریقین کو 23 جون کی پوزیشن پر واپس جانے کے لئے کہا جارہا ہے اور اصل مسئلہ ان چار متنازعہ مورچوں کا ہے جن کے ذریعے سردار اختر جان مینگل کے گھر کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور بد امنی پھیلائی جارہی ہے ہمارا موقف ہے کہ ان تمام متنازعہ مورچوں کو ختم کیا جائے اور جس طرح نواب اسلم رئیسانی اور مولانا محمد خان شیرانی سمیت دیگر قبائلی و سیاسی رہنماؤں یا حکومتی سطح پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی معاملے کے حل کے لئے کار فرما ہے تمام عمائدین کو سردار اختر جا ن مینگل نے مکمل اختیار دیا ہے لیکن دوسرے فریق نے انہیں اختیار نہیں دیا جس کی وجہ سے یہ چیزیں خراب ہوتی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا حالات کی خرابی کی وجہ سے 25 سے 30 ہزار لوگ علاقے سے نقل مکانی کرچکے ہیں اور زرعی علاقہ ہونے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر سفر کرنے والے لوگ بھی غیر محفوظ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگا کر اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے تا حال حالات بہتر نہیں ہوئے اگر پارٹی کو مزید تنگ کیا گیا تو پھر ہم آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے بندوق کی زور پر امن قائم نہیں ہوسکتا 80، 70 ارب روپے خرچ کرکے امن وامان کا قیام شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہمیں لوگوں کے مسائل اجاگر کرنے کی پاداش میں سزا دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا اس کے خلاف ہم احتجاجی شیڈول کا اعلان کررہے ہیں پہلے احتجاجی شیڈول سانحہ مستونگ کی وجہ سے موخر کی تھی اس لئے ہم 15 اکتوبر کو بلوچستان بھر میں خواتین اور بچوں کے مظاہرے اور 18 اکتوبر کو صوبہ بھر میں مظاہرے، 20 اکتوبر کو شٹر ڈا?ن اور 26 اکتوبر کو پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طاقتور قوتیں فیصلہ کریں گی کہ بی این پی کو پارلیمانی سیاست میں راستہ دینا ہے یا نہیں اس کے بعد ہم اپنا لائحہ عمل طے کریں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو فعال بناکر ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی تھم سکے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی این پی سیاسی جماعت ہے اور تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کئے جاتے ہیں ہمارے لئے حکومتی عہدے کوئی معنی نہیں رکھتے گورنر شپ سے استعفیٰ دینا وقت اور حالات کے مطابق فیصلہ کریں گے جماعت نے شہید نواب اکبر بگٹی کے دور میں پارلیمنٹ اور سینیٹ سے بھی استعفے دیئے ہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہمارے لئے حکومتی عہدے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کو فعال بناکر بات چیت کے لئے دونوں فریقین کو بٹھایا جائے تاکہ مسئلے کے حل کو یقینی بنایا جاسکے۔