میں خود کُش ہوں ۔ میجر علی

663

میں خود کُش ہوں
تحریر: میجر علی
دی بلوچستان پوسٹ

صحیح سنا آپ نے میں ایک خود کُش ہوں۔ خود کُش لفظ سُن کر آپ کی ذہن میں کسی جہادی تنظیم کا نام نہاد مجاہد یا مجید بریگیڈ کا فدائی رونما ہو رہا ہو تو رُک جائیں۔ اِن کے علاوہ وہ فرد بھی خود کُش کہلاتا ہے جو منفرد کسی شجر سے لٹک کر ، زھر پی کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی جان لے لیتا ہے ، لیکن میں ایک روایتی خود کُش نہیں بلکہ جدید طرز کا خود کُش ہوں۔

مجھے خود کُش بنایا اِن نئے روایات نے اِس نئی طرز کے دور نے جو مجھ پر مسلط کی گئی ہے ۔ جو مجھے چند پُشتوں کی آبا و اجداد نے فراہم کی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے میں بھی خود کُش کو وہی سمجھا تھا جو آپ سمجھتے ہیں۔ میں اُن خود کُشوں سے اِس لئے مختلف ہوں ، کیونکہ میں ایک فرد نہیں بلکہ ایک قوم ہوں۔

جی ہاں میں بلوچ قوم ہوں ، ما سوائے اُن کے جو زندگی سے آشنا پہاڑوں پر اپنی قوم کی بقاء کے لئے لڑ رہے ہیں ۔ اپنے آنے والی نسلوں کی نجات دہندہ ، ہر لمحہ فکر سے سرشار ، ایک نظریہ کے مالک ، دلیر ، نڈر ، بہادُر ، دشمن کے سامنے ایک چٹان کے مانند ڈھال بن کر کھڑے ہیں ۔ آئے روز اپنے سر کا نذرانہ پیش کر کے امر تو ہو جاتے ہیں لیکن غلامی کا طَوق قبول نہیں کرتے ۔

دراصل میں ، ایک تنگ نظر ، بزدل ، جاہل قسم کا خود کُش ہوں جو برائے راست اپنی جان تو نہیں لے سکتا مگر اپنے ساتھ لاکھوں بلوچوں کے قتل کا مرتکب ہوں ۔ دشمن تو کب کا دیوالیہ ہو چُکا ہے وہ تو میں ہوں جو دشمن کو زَر و مال سے نوازتا ہوں اور اپنی موت خریدتا ہوں ۔ یہ عمل دو طریقوں سے عمل میں آتا ہے ۔ غیر سرکاری ادائیگی اور سرکاری ادائیگی ۔

مثلاً ، غیر سرکاری ادائیگی میں ٹرانسپورٹرز کی شکل میں بھتہ دے کر ، ڈیزل کی کاروبار میں ٹوکن خرید کر یا کوئلہ اور سنگ مرمر کی نقل و حمل کے مد میں کثیر رقم ادا کر کے وغیرہ ، وغیرہ ۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ صرف چند فیصد لوگ ہیں تو یہی چند فیصد لوگ ماہانہ اربوں روپے دشمن کو ادا کرتے ہیں ۔ جو براہِ راست فوجی افسروں میں تقسیم ہوتی ہے ۔

سرکاری ادائیگی میں اُس کی اشیاء خوردونوش کی خرید وفروخت ہو ، اُس کی ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال ہو ، بجلی کی افادیت ، ٹیکس یا کسٹم کی ادائیگی ہو ، وغیرہ ۔ یہ پیسہ پہلے سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے اور پھر سالانہ بجٹ کی صورت میں (80) اسّی فیصد پھر اسی فوجی ادارے کو جاتی ہے ۔

اور ہاں یہ سرکاری و غیر سرکاری ادائیگی اُس تجارتی رقم کے علاوہ ہیں جو 82 کمپنیاں مسلح افواج کے مختلف ونگز کے ذریعے تجارتی ادارے چلائے جا رہے ہیں ۔ جس میں کھاد ، چینی ، سیمنٹ ، جوتے ، اناج وغیرہ سے لیکر ہاؤسنگ سکیم جو فوجی ، عسکری ، شاہین اور بحریہ فاونڈیشن کے علاوہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے دستِ زیر ، کراچی ، لاہور ، ملتان ، راولپنڈی ، اسلام آباد ، گجرانوالہ ، بھاولپور ، پشاور اور کوئٹہ میں واقع ہیں۔

دریں اثنا بلوچستان کا ہر بچہ ہر جوان و بزرگ بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹوٹ کر دشمن کو پیسہ مہیا کر کے اُسے توانائی بخش رہا ہے تاکہ وہ مزید مستحکم ہو سکے ، مزید ساحل و وسائل کی استحصالی کرے اور مزید بلوچ کو کُچل سکے ۔

اُسی رقم کی استفادت سے وہ روزانہ بیگناہ بلوچوں کو اُٹھا کر لاپتہ کرتا ہے ، اپنے خفیہ تہ خانوں میں اذیتیں پہنچاتا ہے اور C.T.D کی شکل میں جعلی مقابلوں میں اُنھیں قتل کر کے اُن کی لاشیں پھینک دیتا ہے ۔ ناجانے کتنے لاپتہ افراد بے گور و کفن گمنام دفنائے گئے اور اُنکی اہل خانہ آج تک اُن کے منتظر ہیں ۔ کمیشن کے چکّر لگا رہے ہیں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں ۔

اُس کی شر سے کوئی محفوظ نہیں رہا ، طالبعلم ، وکلاء ، ڈاکٹر ، اساتذہ ، صحافی ، مزدور یا چرواہا ۔ دشمن کی نظر میں آپ کا بلوچ ہونا ہی کافی ہے خواہ آپ مرد ہو یا عورت یا کمسن بچہ ، کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ آخر وہ کیوں فرق و درق کرے ، وہ تو آمریت کے نشے میں جھوم رہا ہے ۔ اُس کی جیبیں اور پیٹ تو ہم بھر رہے ہیں ، جب ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا تو اُسے کیوں آئے ، وہ تو ٹہرا دشمن ، ایک کم ظرف اور تنگ نظر دشمن جسے دشمنی تک نبھانی نہیں آتی اور دشمن سے کوئی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے ۔

اُسی رقم کی استفادت سے وہ مسلح جتھے تشکیل دئے جاتے ہیں جنھیں ہم ، امن فورس ، مسلح دفاع تنظیم اور ڈیتھ سکواڈ کے ناموں سے واقف ہیں ۔ اِن میں سرکاری دلال ، مقامی مخبر ، سرینڈر شدہ اور مذہبی شدت پسند شامل ہیں ۔ ان سب کی جڑیں ISI , MI , Army یا FC کی چھاؤنیوں سے جا ملتی ہیں ۔

سرکاری دلال مقامی آلہ کار فراہم کر کے دشمن کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں ۔ جو پانچ یا دس ہزار روپے کے عوض اپنا ایمان بھیج کر فوج کی ایماء پر بلوچوں کو قتل کرتے ہیں ، بلوچ جہد کاروں کیخلاف مخبری کا کام کرتے ہیں ۔ فوج و خفیہ اداروں کے ہمراہ فوجی آپریشنوں میں اُن کی معاونت کر کے دشمن کے ہاتھوں بلوچوں کی جبری لاپتہ کروانے میں ملوث ہیں ۔ ورنہ پنڈی سے آئے فوجی کو کیا پتہ کہ میرا گھر کہاں اور کونسا ہے ۔

اور یہ سرکاری دلال اور کوئی نہیں بلکہ N.P ، B.N.P اور B.A.P کے وہی سرکردہ و نام نہاد سیاسی شخصیات ہیں جو خود کو بلوچوں کا غمخوار کہتے ہیں ۔ ایوان کے سیٹوں اور چند مراعات کے لیے بلوچوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اُن کی خون سے ہولی کھیلتے ہیں ۔

اِنہیں کے زیرِ سایہ مذہبی شدت پسند جنم لیکر آگے چل کے سرکشی اختیار کر لیتے ہیں ، اور پھر بلوچ ، توہینِ رسالت کے نام پر قتل ہوجاتا ہے اور کبھی ذگری کے نام پر ۔ مرتا بلوچ ہی ہے ۔

اور اِنہی پہلوؤں پر غور کرتے مجھے ایک دن ادراک ہوا کہ میں فقط غلام ہی نہیں بلکہ بدترین اور بیانک خود کُش بھی ہوں ۔ دیر آید درست آید ! مجھے تو احساس ہوا کہ میں خود کُش ہوں ، آپ اپنا بھی گریبان جھانک کر دیکھیں کہیں آپ بھی میری طرح انوکھا خود کُش تو نہیں ؟ ا گر آپ بھی ہیں تو ہمیں ملکر سوچھنا ہوگا کہ اس بلا سے کیسے چھٹکارہ پائیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔