قاضی تیرے جانےکے بعد مبارک یاد آیا ۔ عمران بلوچ

232

قاضی تیرے جانےکے بعد مبارک یاد آیا 

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

 

مبارک قاضی ایک سلسلہ تھے، وہ سلسلہ اس کی شاعری تھی، وہ سلسلہ اس کا بے خوف موقف تھا، وہ سلسلہ اس کے ببانگ دہل ہوکر ہر موضوع پر اپنے موقف کے واضح اظہار کا تھا، وہ سلسلہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے من کی بات سننا اور من کی کرنے کا تھا، وہ سلسلہ ہر اس معاملے پر بولنا اور موقف دینے کا تھا جو یقیناً بہت سوں کے لئے اس معاشرے میں ناقابل برداشت تھے. وہ پھر چاہے بولنے کی شکل میں ہو، 

سننے کی شکل میں ہو یا پھر دیکھنے کی۔

مبارک قاضی نے نہ صرف انقلابی شاعری کی بلکہ اس انقلابی شاعری کو عملی جامعہ پہنانے کی پاداش میں ان کا جوان بیٹا شہید ہوا۔

بساک کے دوسرے کونسل سیشن بمقام شال کی تقریب حلف برداری کے دوران مبارک قاضی سے پہلی بار باقاعدہ ملنے کا موقع ملا، بلکہ انھیں لاہیف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دینے کا شرف بھی حاصل کیا۔

میری نظر میں ان کی شخصیت کے ہر دو مثبت اور منفی پہلو تھے جو کسی بھی انسان کے ہو سکتے ہیں اور ہیں۔

ہاں البتہ قاضی وہ تخلیق کار تھے جن کی ہر تخلیق سرزمین سے منسلک تھی۔ میں نے انھیں پیار کا، محبت کا خلوص کا اور اپناہیت کا بھوکا پایا۔

میں کوئ شاعر، ادیب یا تخلیق کار نہیں اور نہ ہی قاضی سے زاتی نوعیت کی وابستگی رہی کہ ان کی زات و شخصیت بارے، ان کی شاعری، ان کی تخلیق اور ان کی کتابوں کے بارے تبصرہ کروں یا ان کی زات کے بارے میں کچھ لکھوں یا تبصرہ کر سکوں،   

ہاں البتہ ان کے مرنے کے بعد ان کی یادوں کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے تو سوچا اس پر کچھ لکھا جائے۔

یہ پچھلے سال کی بات ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کمرہ نمبر دو میں ایک أئینی درخواست زیر سماعت تھا جسے ہزارگی اکیڈمی کے نمائندوں نے دائر کر رکھا تھا، جس کے طلبیدہ حقائق کے مطابق سرکار نے باقی تمام زبانوں کو نہ صرف کام کرنے، اپنی زبان کی خدمت کرنے کے لئے اکیڈمی کی بلڈنگ اور کروڑوں روپیے کی گرانٹ دے رکھی ہے بلکہ اس گرانٹ میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی کیا جاتا ہے، مگر دوسری جانب ہزارگی کی نہ بلڈنگ ہے نہ گرانٹ ہے، تو انھیں یہ سب کیوں میسر نہیں ہیں؟  

لہزا عدالت نے براہوئی، بلوچی اور پشتو اکیڈمیز کے نمائندوں کو بمعہ أئین، ممبر شب ریکارڈ اور گرانٹ تفصیل کے ساتھ طلب کیا تھا۔ 

جسٹس تھے ہاشم کاکڑ صاحب ، براہوئ اکیڈمی کی وکالت صلاح الدین مینگل کے بھائی نجم الدین مینگل ایڈوکیٹ کررہے تھے جبکہ بلوچی اکیڈمی کی وکالت جان محمد دشتی صاحب کے فرزند جام ساکا دشتی کررہے تھے۔ ان کے ہمراہ سنگت رفیق بلوچ، ہیبتان دشتی اور ممتاز یوسف بمعہ ریکارڈ بحیثیت نمائندہ بلوچی اکیڈمی پیش تھے.

اسی عدالت میں میرا اور سینئر ایڈوکیٹ شیرجان لہڑی صاحب کے کیسز لگے ہوۓ تھے تو ہم دونوں أکر اولی بینچ پر بیٹھ گئے اور کاروائ سننے لگے، جو لوگ کیس میں پیش تھے وہ پیچھے بیٹھے لوگوں کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔

سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے براہوئ اکیڈمی کے وکیل سے کہا کہ میں خود برسوں سے دیکھ رہا ہوں أپ کا بھائ تا حیات براہوئ اکیڈمی پر قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے، وہ کیوں نوجوان نسل کو أگے أنے اور کام کرنے نہیں دیتا ہے؟ حالانکہ ان کا ادب سے، تخلیق سے اور اکیڈمی سے دور دور کا کوئ تعلق نہیں ہے، اور پھر کوئیٹہ کجا، بلوچستان تو دور کی بات ہے وہ مستقل اسلام أباد جاکر بیٹھے ہیں، اور وہاں سے اکیڈمی چلاتے ہیں۔ وکیل صاحب نے ہنسی مزاق میں بات ٹال دی۔

خیر اسی طرح جب بلوچی اکیڈمی کی باری أئ تو جج صاحب نے کہا بلوچی اکیڈمی کا أئین نہیں مارشل لاء کا قانون لگتا ہے، ممبر شپ کو اوپن کیوں نہیں رکھا گیا ہے اور یہ کوئ أئین نہیں جو أج یہاں پیش کیا گیا ہے بلکہ چند افراد کو نوازنے والی بات لگتی ہے اور مزید کہا کہ میں دشتی خاندان کو زاتی طور پر جانتا ہوں، پوری خاندان ان میں چاہے کوئ وکیل ہے، کوئ جج ہے، کوئ بیوروکریٹ ہے، کوئ بزنس مین ہے یا سیاسی ورکر ہے پورے کا پورا خاندان اکیڈمی کا ممبر بنایا گیاہے، اور ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ممبر بناۓ گئے ہیں کہ جن کا ادب، تخلیق، کتاب اپنی جگہ کسی نے ایک شعر بھی نہیں لکھا ہے وہ بھی اکیڈمی کا ممبر بنایا گیا ہے۔

لہزا اس أئین کو تبدیل کریں اور اپنے یہ مرشل لاء والے رولز دوسری طرف کرکے کم از کم بلوچی کے ہر ادیب و دانشور کو ممبر بنایا جائے۔ 

یہ کیا طریقہ کار ہے کہ گزشتہ کئ دہائیوں سے ممبر شب پچاس ساٹھ سے بڑھتا ہی نہیں ہے؟ اس پر سنگت رفیق نے کہا کہ جناب اگر ممبر شپ کو اوپن کرینگے تو کوئ بھی أکر ممبر بنے گا اس کا ہمیں نقصان ہے۔ 

 جج صاحب نے کہا بھلے کوئی بھی ہو تمھیں اس سے کیا؟ أخر وہ ممبر بلوچ ہی ہوگا، اور بلوچی ادب سے ہی اس کا تعلق ہوگا بس۔۔۔ جواب میں سنگت رفیق نے کہا جناب یعی تو مسلہ ہے ہر کسی کو ممبر شپ دینگے تو گڑبڑ ہوگا، اب پسنی شہر سے تعلق رکھنے والا ایک شاعر ہے جو بلوچی میں شاعری کرتا ہے مبارک قاضی اس کا نام ہے اسے بھی ممبر بنانا پڑیگا جو چوبیس گھنٹے شراب کے نشے میں دھت رہتا ہے، 

اس پر جج صاحب نے کہا تمھیں حیف ہے ایسی بات کرتے ہوۓ، ( اصل جملہ نہیں لکھ سکتا) تم مبارک قاضی جیسے ادیب اور عظیم انسان بارے اس طرح کیسے کہیہ سکتے ہو؟ خاص کر اس کی ایک زاتی فعل کو اس طرح بھرے مجمے میں بیان کرنا۔

جج صاحب نے کہا نہ صرف میں نے ان کی شاعری اور کتابوں کے بارے میں سنا ہے بلکہ میں زاتی طور پر انھیں جانتا ہوں، أپ کو ان کی ادبی تخلیق سے کام ہے یا زاتی معاملات اور نجی زندگی سے؟

 أپ کی اپنی تخلیق کیا ہے؟ مبارک قاضی تو بلوچوں کی پہچان ہےاور کونسا ادیب، دانشور اور بڑا تخلیق کار شراب نہیں پیتا ہے؟ 

اس پر مزید جج صاحب نے نام لئے بغیر ایک اور واقع کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں تربت یونیورسٹی کے لئے لیکچراری کا تحریری امتحان پاس کرنے والوں کا انٹرویو لینے گیا ہوا تھا تو وہاں انٹرویو کے دوران ایک ایسا امیدوار انٹرویو دینے أیا جس نے تحریر میں اپنے سبجیکٹ میں ٹاپ کیا تھا۔ 

 وہ شخص تربت کا مقامی تھا لہزا میں نے اس سے سوال کیا کہ موجودہ بلوچ تحریک بارے اس کی کیا رائے ہے؟ اس نے شاید یہ سمجھا کہ یہ ایک جج ہے جو سرکاری ملازم ہے أخر تنخواہ ہی لیتا ہے لہزا انھیں خوش کرنے اور پاس ہونے کے لئے جھوٹ بولتا ہوں تو اس کو متاثر کرسکوں گا لہزا اس نے کہا، یہاں کوئ قومی اور سیاسی جدوجہد نہیں چل رہا ہے ۔

بلکہ سارے دہشت گرد ہیں ، غیر ملکی ایجنٹ ہیں ، جو ملک کو بدنام کررہے ہیں۔ جج صاحب نے کہا ساری کمیٹی گواہی دیگی جب میں نے اس سے دوبارہ پوچھا کہ پھر مسنگ پرسنز، مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں کے بارے میں کیا خیال ہے یہ کہاں سے أتے ہیں اور کون ہیں؟ تو اس نے اپنی لالچ کو مد نظر رکھااور اس کے حساب سے یعنی موقعے کی مناسبت سے فوراً کہاکہ جی یہاں بالکل ظلم ہورہا ہے، نا انصافی اور زیادتی ہورہی ہے۔ 

جج صاحب کے بقول میں نے اپنے ریمارکس میں اسے فیل کردیا کہ یہ أدمی منافقت کررہا ہے اس لیے ایسا شخص استاد بننے اور پڑھانے کے لائق نہیں ہے، چونکہ ایسا شخص منافق ہوتا ہے اس لیے اب اگر یہ یہاں لیکچرار لگ گیا تو یہ میرے بچوں کو منافقت ہی سکھاۓ گا۔ 

جج صاحب نے سو فیصد درست بات کہی، کیونکہ أج کل تربت یونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے اس میں واقعی منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

پھر جج صاحب نے قصہ ختم کرنے کے بعد کہا تم لوگ بھی وہی کچھ کر رہے ہو ، اس دوران کیس کی کاروائ جاری تھی کہ وقفے کا اعلان ہوا تو میں نے شیر جان لہڑی سے کہا نہ صرف انھوں نے انتہائ غلط اور غیر مناسب بات کی ہے بلکہ سب کی رسوائ ہوئ ہے لہزا میں احتجاج کرتا ہوں۔

 انھوں نے کہا بالکل درست کہیہ رہے ہو ، کیوں کہ ان لوگوں نے نہ صرف قاضی صاحب کی بلکہ پوری قوم کی توحین و رسوائ کی ہے۔

 شیر جان صاحب نے مشورہ دیا کہ چلو پہلے ان سے بات کرتے ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے پیچھے مڑھ کر ہمیں دیکھا تو بہت ہی شرمندہ ہوئے بلکہ ان سب کے چہرے لال پیلا ہونے لگے اور سمجھ گئے کہ ہم ان کے اس بیان سے ناراض ہیں اور احتجاج کے موڈ میں ہیں۔ 

 کیونکہ ہم نے کورٹ کے اندر احتجاج کا پروگرام بنایا تھا لہزا فوراً ان کو پکڑا کہ تم لوگوں نے نہایت ہی غلط بات کی ہے ، اس پر ہم احجتاج کرتے ہیں اور کہا کہ اپنی کہی ہوئ بات واپس لو، نہیں تو ہم نہ صرف وقفے کے بعد عدالت میں احتجاج کرینگے بلکہ قوم کے سامنے بھی سچای لیکر أہینگے۔

 پھر یہ چاروں اگلے ایک گھنٹے تک ہماری منتیں کرتے رہے، واسطہ دیتے رہے، اور سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے کہ ہم سے غلطی ہوئ ہے، سنگت رفیق کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، دراصل وہ گھبرا گیا ہے ، کورٹ کا پریشر تھا، ہم کچھ اور کہنا چاہتے تھے، 

کسی اور تناظر میں کہنا چاہتے تھے۔ جج صاحب پہلے ہی ہمیں کافی کچھ سنا چکا ہے أپ لوگ ایسا نہ کریں وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ تب قاضی صاحب زندہ تھے تو میں نے ایک دو ادبی دوستو سے اور اساتذہ سے اس بات کا نہ صرف زکر کیا بلکہ دی بلوچستان پوسٹ میں ایک أرٹیکل لکھ کر کسی کا نام لیے بغیر اس واقع کا ہلکا سا زکر لایا تھا۔۔۔ 

مگر أج میں سمجھتا ہوں کہ من و عن اس قصے کو لکھوں تاکہ قاضی کے علاوہ باقی تمام کردار جو زندہ ہیں وہ دیکھے اور پڑھ لیں، ہوسکتا ہے کہ کل کو اگر انسان حیات رہا اور اپنی یادداشتوں میں اس معاملے کا یا ان جیسے واقعات کا زکر أئے تو کوئ نا کسی پر الزام لگائے اور نہ ہی غلط بیانی سے کام لے۔

 ساہجی کے رونما ہونے والے واقع سے پوری قوم اچھی طرح واقف ہے اس لئے اس واقع کو میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا البتہ اس سے جڑے ایک اور قصے کا زکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔

 غالبا انھیں دنوں جب ساہجی کا واقع ہوچکا تھا اس کے أس پاس کے دنوں میں تربت میں کچھ ملاوں اور تبلیغیوں کا چند مقامی لوگوں کیساتھ شاہد تبلیغی مرکز کے زمین پر کوئ تنازع چل رہا تھا، اتنا یاد ہیکہ ان دنوں یہ دونوں واقعات نئے نئے رونما ہوچکے تھے، انھیں دنوں مجھے بلوچی اکیڈمی سے شایع شدہ چند کتابوں کی ضرورت پڑی تو میں نے سنگت رفیق سے رابطہ کرکے کتابوں کی گزارش کی، یہ کہیہ کر انھوں نے مجھے اکیڈمی بلایا کہ أجاو بیٹھ کر گپ شب بھی ہوگی اور کتابیں بھی لیجانا، لہزا میں گپ شپ کا بھوکا یہ سوچ کر چلا گیا کہ اکیڈمی، اساتذہ ، دوست اور کتابیں سارے کے سارے وہاں موجود ہیں تو کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

 جب میں وہاں گیا تو سیدھا سنگت رفیق کے دفتر چلا گیا، گپ شپ اور چائے کا سلسلہ چل نکلا اسی دوران کچھ اور دوست بھی أگئے ، تھوڑی دیر کے بعد برکت اسماعیل صاحب بھی اکر بیٹھ گئے چند لمحے گزرے ہونگے کہ گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا اس بیچ ایک اور شخص اکر وہاں بیٹھ گیا جو برکت اسماعیل صاحب اور سنگت رفیق صاحب کے جاننے والے تھے۔ 

 اس نے سنگت سے کہا کہ میں واجہ جان محمد صاحب کے ساتھ دوسرے کمرے میں کافی دیر سے بیٹھا ہوا تھا سوچا جانے سے پہلے أپ سے بھی مل لوں، پھر چلا جاؤں گا۔ 

وہ مجھے نہیں جانتا تھا نہ کوئ تعروف ہوا ، چونکہ میرے سوا باقی سارے دوستوں کا تعلق مکران سے تھا اس لئے ہم بلوچی میں بات کررہے تھے ، دراصل وہ نومولود ہمارے بیچ بہت بعد میں أیا تھا اس لئے اسے موضوع ء بحث کا پتا نہیں تھا۔

 ہم بلوچ سیاست پر بات کر رہے تھے لیکن اس نے سنگت رفیق اور برکت اسماعیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ أپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ براہوئ ان پڑھ ، جاہل ، گوار اور قبائلی ہیں۔ بلکہ مکران کے علاوہ باقی تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ قبائلی، جاہل اور جھگڑالو ہیں ۔

 براویوں نے مکران کے پر امن اور مہزب معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے، لہزا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان براویوں کو مکران سے نکالا جائے۔

وہ شخص پورے ایک گھنٹے تک اس بابت بولتا رہا۔

سنگت اور برکت صاحب سنتے رہے، ہاں ہوں کرتے رہے۔ 

ان دونوں نے اسے نہ روکا نہ ٹوکا اور وہ مسلسل بولتا رہا۔

جب وہ أدمی اٹھ کر چلا گیا تب بھی برکت اسماعیل خاموش رہا ، البتہ اب سنگت نے مجھ سے مخاطب ہوکر پوچھا أپ نے اس کی باتوں کا برا تو نہیں منایا ؟ میں نے کہا میں کیوں برا مناؤں گا؟ جگہ أپ کا مہمان أپ کے۔

پھر میں اپنی قوم اور اپنی سرزمین سے اچھی طرح واقف ہوں کہ بلوچ میرا قوم، بلوچستان میری سرزمین ، بلوچی و براہوئ میری زبانیں ہیں۔

بہرحال اس کے علاوہ انھوں نے اس کے سامنے یا اس کے بعد ایک لفظ بھی نہیں بولا پھر میں بھی اٹھ کر چلا گیا ۔

اس دن کے بعد أج تک میں نے دوبارہ اکیڈمی میں پھر کھبی قدم نہیں رکھا۔

ہاں التہ ان دنوں کچھ دوستوں سے اس بات کا میں نے تزکرہ ضرور کیا تو معلوم ہوا اس شخص کا بنیادی تعلق کولواہ سے تھا اور وہ نوشیروانی بلوچ تھا جو کافی عرصے سے تربت منتقل ہوگیا تھا۔ 

دراصل مسلہ بولنے والے کا نہیں تھا، مسلہ سننے والے کا تھا، مسلہ میزبان کا تھا، مسلہ اس جگہ کا تھا۔

جج صاحب نے ٹعیک کہا تھا کہ تقریر ہو یا تحریر، بیان ہو یا مضمون، موقع کی مناسبت سے سب اسے بدلتے رہتے ہیں، پھر چاہے کھبی صوبہ کہے تو کھبی وفاق ، کھبی أہین و قانون و پر امن شہری یا پھر پر امن جدوجہد یا موقع کی مناسبت سے مکمل ریڈیکل۔ 

 یہ وقت ، حالات اور زاتی ضروریات پر منحصر ہے، اسی لئے یہ سب تضادات سے بھرپور ہیں۔

أخر میں بس اتنا کہوں گا کہ بڑھتے چلو، لکھتے چلو۔

ادارے بناتے چلو، ادب کا مقام ہے ، اکیڈمی ہے۔ دانشوری ہے۔ یونیورسٹی ہے۔ شعور ہے، أگاہی ہے۔

أخر میں میں ، میری زات، میری ضروریات ۔۔۔ اور موقع کی مناسبت۔۔۔

 


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔