سی پیک کے حوالے بلند و بانگ دعوے حقیقت کی عکاسی سے زیادہ پروپیگنڈے کی پیداوار تھے – رپورٹ

350

نقدی کی کمی سے دوچار پاکستان نے چین سے سی پیک کے پروجیکٹوں کی فنڈنگ میں اضافہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کے مدنظر محتاط دکھائی دے رہا ہے۔

ایسے وقت جب چین رواں برس اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کی دسویں سالگرہ منا رہا ہے، اس پہل کے تحت سب سے اہم سرمایہ کاری میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی کوریڈور(سی پیک) میں سرمایہ کاری رکی ہوئی نظر آتی ہے۔

دونوں ملکوں میں سن 2015 میں ہوئے معاہدے کے تحت سی پیک کے ذریعہ ریل اور سڑک رابطوں کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس بنیادی ڈھانچے کے فروغ کا مقصد چینی اشیاء کو سنکیانگ کے علاقے سے پاکستان کے پہاڑی سرحدوں سے گزرتے ہوئے کراچی سے 630 کلومیٹر مغرب ( بلوچستان) میں واقع گوادر بندرگاہ پہنچا کر بحیرہ عرب میں بھیجنا ہے۔ سی پیک میں پاکستان میں توانائی کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھی اربو ں ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔

تاہم سی پیک کے فیصلہ ساز ادارے کی جولائی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی میٹنگ کی تفصیلات کے مطابق چین نے حال ہی میں پاکستان کی طرف سے سی پیک کے متعدد منصوبوں کے لیے فنڈ فراہم کرنے کی درخواست پر ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔

واشنگٹن میں واقع ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر میں جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں،”سی پیک کی سست رفتاری کو اقتصادی اور سکیورٹی دونوں عوامل سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے بگڑتے ہوئے معاشی بحران اور چین کی اپنی حالیہ سست رفتاری نے نئے منصوبوں کے امکانات کم کر دیے ہیں۔”

پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ بنیادی ڈھانچہ کے شعبے کا یہ تاریخی منصوبہ ملک کی معیشت کے لیے ‘ شاہراہ زندگی ‘ کا کام کرے گا۔

تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے حقیقی نتائج توقع سے بہت کم برآمد ہوں گے۔

کامسٹیس یونیورسٹی اسلام آباد میں پاکستان چین تعلقات کے اسکالر عظیم خالد کا کہنا تھا کہ، ” زیادہ وعدہ اور کم نتائج ایک اہم عنصر بنا ہوا ہے، جس میں صلاحیت کے مسائل اور سیاسی اور سکیورٹی محاذوں پر عدم استحکام شامل ہے۔”

عظیم خالد نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے سی پیک کے ٹھوس فوائد محدود ہوگئے ہیں، دوسری طرف عوامی قرضوں اور چینی کمپنیوں کو ادائیگیوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ، “یہ کہنا زیادہ محفو ظ ہے کہ سی پیک کے حوالے بلند بانگ دعوے حقیقت کی عکاسی سے زیادہ پروپیگنڈے کی پیداوار تھے۔ پاکستان کے میڈیا اور دانشوروں کی مدد سے چین نے بھرپور انداز میں اس منصوبے کی مارکیٹنگ کی، جس سے لوگوں کی توقعات میں اضافہ ہوگیا۔”

چین بی آر آئی سرمایہ کاری پروجیکٹ کے منصوبوں کو لاحق سکیورٹی خطرات کے متعلق کافی فکر مند ہے، جو نئی سرمایہ کاری اور منصوبوں کی تکمیل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

سن 2021 میں شمالی پاکستان میں بس پر ہونے والے حملے میں نو چینی ورکرز مارے گئے تھے، چین نے اسے “بم حملہ”قرا ردیا تھا۔ سن 2022میں کراچی میں ایک خودکش بمبار نے چینی ٹیچروں کو ہلاک کردیا تھا۔

حملے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا تھا،’چین پاکستان دوستی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر کو نقصان پہنچانے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔”

کوگل مین کا کہنا ہے کہ “سکیورٹی خطرات سے چین کی فکر مندیاں بڑھتی جارہی ہیں کیونکہ اسے اب بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ہمیشہ سے موجود بلوچ باغیوں، دوبار سراٹھانے والی پاکستان تحریک طالبان اور آئی ایس (خراسان) شامل ہیں۔

کوگل مین کہتے ہیں کہ، “پاکستان کی جانب سے ان خطرات کو کم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے چین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر صورت حال بدترین ہوئی تو چین، اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لیے اپنی سکیورٹی فورسز کو لانے پر غور کرسکتا ہے، جو کہ اسلام آباد کے لیے سیاسی لحاظ سے نقصان دہ ہوگا۔”

تجزیہ کار خالد کا کہنا ہے کہ چین “پاکستان کے اندر کام کرنے والے اپنے اہلکاروں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔” انہوں نے کہا، “سی پیک منصوبوں اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوئی بھی خطرہ سی پیک کی پیش رفت میں بڑی حد تک رکاوٹ بن سکتا ہے۔