زرینہ کا اذیت بھرا انتظار – ٹی بی پی اداریہ

149

زرینہ کا اذیت بھرا انتظار

ٹی بی پی اداریہ

‏”میرے شوہر گزشتہ کئی سالوں سےجبری گمشدہ ہے، میں نہیں جاتنی کہ میں خود کو اُن کی بیوی سمجھوں یا بیوہ ” زرینہ کی سات سال سے جبری گمشدہ شوہر شبیر بلوچ کی رہائی کے لئے کراچی میں احتجاج پر ادا کئے گئے یہ الفاظ بلوچ خواتین کے درد اور اذیت کو آشکار کرتی ہیں، جو کئی سالوں سے اپنے جبری گمشدہ پیاروں کے منتظر راہ تک رہی ہیں اور انتظار اُن کا مقدر بن چکی ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی انفارمیشن سیکٹری شبیر بلوچ کو چار اکتوبر دو ہزار سولہ کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے فرنٹیر کور نے جبری گمشدہ کیا۔ شبیر کی بہن سیما اور بیوی زرینہ سات سال سے اُن کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے ہیں، اسلام آباد اور کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دے چکے ہیں، کوئٹہ، حب چوکی اور کراچی میں مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ پاکستان کے عدالتوں اور انسانی حقوق کمیشنوں کے در کٹھکٹاچکے ہیں لیکن سات سال گزرنے کے باجود شبیر بلوچ بازیاب نہ ہوسکے۔

جنگ زدہ بلوچستان میں سینکڑوں زرینہ ہیں جو نہیں جانتے کہ اُن کے شوہر زندہ ہیں یا مار دیئے گئے ہیں۔ سیمہ، فرزانہ اور رخسانہ جیسی بہنیں سالوں سے اپنے بھائیوں کی راہ دیکھ رہے ہیں اور کئی بوڑھے والدین اپنے بیٹوں کے انتظار میں اس جہاں سے رخصت ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں ایسا کوئی علاقہ نہیں بچا جو جبری گمشدگیوں سے متاثر نہیں ہے۔

پاکستان کی بلوچ انسرجنسی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے جبری گمشدگی کو ہتھیار کے طور استعمال کرنے کی پالیسی نے بلوچستان میں ایسا المیہ جنم دیا ہے جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہیں۔ جبری گمشدگیوں پر دنیا اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی اور پاکستان سے جواب طلبی سے اجتناب بلوچستان کے مخدوش حالات کے ابتری کا سبب بن رہا ہے۔