بی ایس او کی ضرورت صرف شو پیس کی کیوں؟ ۔ سفر خان کشانی بلوچ

358

بی ایس او کی ضرورت صرف شو پیس کی کیوں؟ 

تحریر: سفر خان کشانی بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

بی ایس او کے تقسیم اور دھڑے بندی کے لئے ہر تاریخ مختلف کرداروں سے بھری پڑی ہے لیکن بی ایس او کو متحد کرنے بی ایس او کو سہارہ دینے و بی ایس او کو توانا کرنے و ضرورت کے وقت بی ایس او کا ساتھ دینے والے کردار ہمیشہ کم ہی رہے ہیں۔ چاہے شہید حمید بلوچ کے پھانسی کے وقت بی ایس او کے علاوہ دیگر لوگوں کے خاموشی ہو یا مشرف دور سے لیکر اب تک تعلیمی اداروں میں بی ایس او کے خلاف طاقت کے استعمال سرگرمیوں پر پابندی ہو کبھی بھی کوئی بی ایس او کا نا ساتھ دے سکی نہ ہی بی ایس او کے کسی سیاسی عمل کو سپورٹ دیا جاسکا جب جام کمال خان کے دور میں طلباء تنظیموں کے تعلیمی اداروں میں سرگرمیوں کو روکا گیا تو طلباء سیاست کے لئے کوئی آواز نہ اٹھاسکے نہ ہی اس وقت اخبارات میں اس حوالے سے کوئی بیان شامل ہوسکی ۔

اسی طرح جب بلوچستان یونیورسٹی میں ایک وائس چانسلر جس نے بی ایس او کے شعوری سرگرمیوں کو روکنے و پروپگنڈہ مہم کے باوجود اکثر حضرات اپنوں کے پوسٹنگ کے لئے اسی وائس چانسلر سے ملتے اور چائے پیتے رہے ۔کیا طلباء تنظیموں کے بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران محض فوٹو سیشن کے علاوہ کوئی اور کیا کوئی اسٹیند لیا گیا ۔ آخر میں صورتحال یہی نکلی کہ جامعہ بلوچستان میں بلوچستان کی عزتوں کو تار تار کی گئی ۔

اسکے علاوہ بی ایس او کے سرگرم کارکنوں کے خلاف پروفائنلنگ اور تنگ کرنے کا کا سلسلہ شروع ہوا سرگرمیوں کو روکا گیا کیا اس وقت کوئی وائسرائے آکر بی ایس او کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے آیا ۔

سوال یہ یے کہ بلوچستان میں تعلیمی ادارے آج جس حالات کا شکار ہے سیکھنے و سکھانے کا عمل صرف ڈگری کے بانٹنے کے فیکٹری بن کرکالجز کی حالت زار یہ ہے لیکن کیا آج تک اس پر کسی نے بی ایس او کے رہنمائی کے لئے کوئی مہڑھ یا شہیدوں کا واسطہ لیکر آیا کہ تعلیمی اداروں و ہاسٹلز میں بی ایس او کا کوئی ممبر جو ایک وقت کا کھانا کھا کر اپنے لئے کتابیں خریدتا ہے کیا کسی نے بی ایس او کے کارکنوں و سرکلز کے لئے کتابیں خریدیں اس وقت تو اسکیمات کی جنگ سڑکوں پر سیاست کو کرپشن اور کمیشن کے زریعے کالا نہیں کیا گیا ۔

کیا آج تک کسی اسکول لائبریری و کالج کے لائبریری میں کوئی وائسرائے آکر شہیدوں کا واسطہ لیکر حاضر ہوا کہ بھئی اس لائبریری میں کس کتاب کی ضرورت ہے طلباء کو عصر حاضر میں کن حالات کا و مشکلات کا سامنا ہے ۔

کیا شہیدوں کا واسطہ صرف اپنے گروہ بندی کو بچانے یا کسی سرمایہ دار ایم پی اے کی خوشندوی حاصل کرنے کی اور معمالات کو حل کرکے اسکو بغیر مینڈیٹ کے حل کرنے کی کوئی شاباش وصول کرنے کی مقابلے کی کوئی سیاسی عمل کی گئی ۔

ان حالات میں بی ایس او میں گروہ پیدا کرنے و تنظیم کے دوستوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے کے علاوہ کیا کوئی وائسرائے آیا کہ اسٹڈی سرکل پر بی ایس او کے کارکنوں کے تربیت کرتا انہیں تعلیمی اداروں میں لڑانے سے روکنے کے لئے کوئی کتاب یا لیکچر دی گئی ۔

آج بلوچستان کے دور دراز کے تعلیمی اداروں میں حالت زار تنظیم کی وجود کی کیا حالت ہے جہاں تنظیم کی رہی سہی ڈھانچہ موجود ہے وہاں لڑائی و خوشامدی نعرے بازی کے علاوہ کیا حالات ہے کیا اس پر بھی کوئی وائسرائے نامزد ہوکر اپنا کردار ادا کرسکے گا یا یہ کردار صرف دوسری سوچ رکھنے و تنقید کرنے والے دوستوں پر لگایا جائے گا ۔تاکہ پارلیمانی سیاست کے نام پر جو گند رچائی گئی یے اس پر بلوچ قوم کے رائے کو روکا جاسکے اگر تنقید اتنا ہے حرام یے تو کیا کسی قبائلی شخصیت سے آج تک یہ حق چھینی گئی یے سینئر لوگوں کو سرعام بے غیرت کہنے کے آڈیو لیکس کے بعد بھی کوئی عمل نہیں کی گئی جبکہ بی ایس او کے غریب کارکنوں کو رات کی تاریکی میں 3 بجے تنظیم سے بیدخل کرکے سیاست سے دور کیا گیا ۔کیا بلوچستان میں سیاست صرف کسی کے سفارش یا گارنٹی پر کی جاسکتی یے جب سفارش و گارنٹی نہ ہو تو کسی کو سیاست کرنے کا حق نہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔