اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد ہلاک

203

اسرائیل اور حماس کے درمیان پانچویں روز بھی لڑائی جاری ہے، اس دوران اسرائیل نے غزہ کے لیے بجلی، ادویات، خوراک، ایندھن اور پانی سمیت دیگر تمام سامان کی سپلائی بند کر دی ہے، جس سے انسانی بحران کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر پانچویں روز بھی فضائی حملے ہور ہے ہیں، جبکہ حماس کی جانب سے بھی جنوبی اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ رات بھی اسرائیلی طیارے مسلسل غزہ پر بمباری کرتے رہے۔

جمعرات کی صبح فلسطین کی وزارت صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہفتے کے روز حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں کے بعد سے اب تک 1200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بیان کے مطابق غزہ میں پانچ ہزار 600 افراد اب تک زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اسرائیلی حکام نے بھی1200 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں طرف ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب ڈھائی ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

اسرائیل کی بمباری جاری

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس کے تازہ ترین فضائی حملوں کا مقصد سرنگوں کے اس نیٹ ورک کو تباہ کرنا ہے، جو کئی دہائیوں سے حماس کے آپریشنز سینٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔

ایکس (ٹویٹر) پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ترجمان جوناتھن کونریکس نے کہا کہ ”غزہ کی پٹی کو اس طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک پرت شہریوں کی ہے اور ایک پرت حماس کے لیے ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ سن 2007 میں حماس کے غزہ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے برسوں کے دوران تعمیر کی گئی سرنگوں نے حماس کے لیے رسد کی منتقلی کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف منصوبہ بندی اور آپریشن شروع کرنے کا کام انجام دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ”جو کچھ نظر آتا ہے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اسرائیلی فضائیہ غزہ کے بہت سے محلوں پر حملے کر رہی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ حملہ کرنے والے کمانڈروں اور حماس سے متعلق تمام شعبوں کے سینیئر رہنماؤں کو پہلے ہدف بنانے کے لیے ہے۔”

انہوں نے کہا، ”جو کچھ بھی ہے، اگر اس کا تعلق حماس  سے ہے، تو ہم اس پر حملہ کر رہے ہیں۔”

ادھر زمینی حملے کی تیاری کے لیے اسرائیلی فوج بھی غزہ کی سرحد کے قریب جمع ہے۔

غزہ میں ساڑھے تین لاکھ کے قریب افراد بے گھر

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں کے جاری رہنے سے اب تک 338,000 سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کے لیے بجلی،ادویات، خوراک، ایندھن اور پانی سمیت دیگر سامان کی سپلائی بند کر دی ہے، جس کی وجہ سے غزہ کا واحد پاور اسٹیشن بھی بند ہو گیا ہے۔

ہسپتال زخمیوں سے بھر پڑے ہیں جبکہ وہاں بجلی نہیں ہے اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ اس سے وہاں بدترین قسم کی انسانی بحران کی صورت پیدا ہو گئی ہے۔ وہاں انتہائی ضروری امداد اور ادویات فراہم کرنے کے لیے ایک محفوظ راستے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی بڑھ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی کے دوران غزہ میں خوراک، ایندھن اور پانی کی ضروری سپلائی کو شہریوں تک پہنچنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا، ”ہمیں اب تیز رفتار اور بلا روک ٹوک انسانی رسائی کی ضرورت ہے۔”

غزہ کے حکام کے مطابق غزہ سے مصر جانے کا مرکزی راستہ ‘رفع کراسنگ’ منگل سے اسرائیلی بمباری کے بعد سے بند کر دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکہ اس بات کے لیے اسرائیل، اقوام متحدہ اور مصر کے ساتھ مل کر بات چیت کر رہا ہے کہ کچھ امداد غزہ کے اندر جانے اور وہاں سے باہر لانے کی جانے کی اجازت دی جائے۔

امریکہ کی ایران کے لیے تنبیہ

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں یہودی برادری کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جہاں انہوں نے اسرائیل اور غزہ کے بحران پر اپنے تازہ ترین بیانات جاری کیے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی جنگی طیاروں اور بحری جہازوں کا اسرائیل کے قریب جانا ایران کے لیے ”محتاط رہنے” کی تنبیہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ حملہ یہودیوں کے خلاف نہ صرف نفرت بلکہ خالص ظلم کی ایک مہم تھی۔”

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی ”اہم” ہے کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے خلاف جاری فوجی مہم میں ”جنگی اصولوں کے مطابق” کام کرے۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس جمعے کو روز امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

توقع ہے کہ مسٹر بلنکن چند گھنٹوں بعد ہی اسرائیل اور اس کے شہریوں کی ساتھ حمایت کے اظہار میں تیل ابیب پہنچنے والے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے عہدیدار نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ امریکی وزیر خارجہ جمعرات کے روز ہی اردن کے شاہ عبداللہ سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔

جرمنی کی اسرائیل کو جاسوسی ڈرون کی پیشکش

جرمن وزارت دفاع نے اسرائیل کے استعمال کے لیے اپنے دو اسرائیلی ساختہ ہیرون جاسوس ڈرون فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

اس نے کہا کہ اسرائیل نے اس کی درخواست کی تھی، جس کا وہ جواب دے رہا ہے۔ جرمنی کے پاس اس وقت پانچ جاسوس ڈرونز ہیں، جنہیں وہ اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنی سے لیز پر لیتا ہے جو انہیں بناتی ہے۔

حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے برلن میں حکومت اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور امداد کی پیشکش کرنے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے۔

جرمن چانسلر اولاف شولس اس حوالے سے جمعرات کے روز ہی جرمن پارلیمان میں ایک بیان دینے والے ہیں۔

شولس کا کہنا ہے کہ غزہ میں حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کے لیے وہ ترکی اور قطر کے ساتھ ممکنہ طور پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں رہائی کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں ”احتیاط سے کام لینا” اور ان علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات کرنا شامل ہے جو اثر و رسوخ استعمال کرنے کے قابل ہو سکتی ہیں۔