احناف کے نزدیک احادیث مبارکہ کی درست پوزیشن – اسماعیل حسنی

165

احناف کے نزدیک احادیث مبارکہ کی درست پوزیشن

تحریر: اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

کبھی کبھار روایات کی بحث میں جب صحاح ستہ کی کسی روایت پر بات ہوجاتی ہے تو احباب یہی سمجھتے ہیں کہ شاید ہم حدیث کی حُجیت کو ہی تسلیم نہیں کرتے یا ہمارا معاملہ خدانخواستہ پنجاب کے اہل قرآن فرقے کا سا ہے۔ حالانکہ بات ایسی بالکل نہیں، ہم حنفی ہیں، حنفی اصولوں پر ہی روایات کو پرکھتے ہیں، زیادہ تر روایات پرکھنے کےلیے ہم احناف علماء کا موقف پیش کرتے ہیں۔ ہمارا امام صاحب کسی روایت کو حدیث رسول تسلیم کرنے میں نہایت محتاط ہیں، اس لیے ان سے منقول ایک روایت میں بھی آپ کو ”قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کا فقرہ لکھا ہوا نہیں ملے گا بلکہ ”قال ابی حنیفہ“ کا عبارت درج ملے گا، وجہ یہی احتیاط ہے کہ کسی قول کو محض عنعن، حدثنا یا اخبرنا کے ذریعے رسول کریم علیہ السلام کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔

احادیث ظنیات کا فائدہ دیتے ہیں قرآن کی طرح قطعیات کا حکم ہرگز نہیں رکھتے۔ ظن عربی زبان میں گمان، تخمین اور اندازے کو کہا جاتا ہے۔ گمان میں کسی چیز کے ہونے نہ ہونے کے دونوں پہلوؤں کا احتمال پایا جاتا ہے۔ ایک ہی پہلو کا احتمال رکھنے والی بات قطعی ہوتی ہے ظنی نہیں۔ یہ صفت خاص ہے صرف اور صرف قرآن کریم کے ساتھ۔ قرآن کے علاوہ کسی بھی کتاب کو ہم قطعی ہرگز نہیں مانتے، کیوں کہ روایات کا کوئی بھی مجموعہ تواتر سے ثابت نہیں، اس کے باوجود ہم ائمہ محدثین کا دل و جان سے قدر و احترام کرتے ہیں، ان کی خدمات کو تحسین و آفرین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کارناموں کا مکمل آداب کے ساتھ تذکرہ کرتے ہیں اور نیک الفاظ میں یاد کرتے ہوئے ان احسانات کے بدلے ان کے حق میں مغفرت کی دعائیں بھی کرتے ہیں۔

ہماری نجی مجالس میں جب کسی بھی روایت کی درایت پر جب گفتگو ہوتی ہے تو بعض احباب جذبات میں آکر جھٹ سے یہ کہہ جاتے ہیں کہ پھر تو ائمہ محدثین کو ذخیرہ روایات جمع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا جیسے کہ امام صاحب نے کوئی کتاب میراث میں نہیں چھوڑی ہے۔ ایسے مواقع پہ میرا نقطہ نظر کچھ اور ہوتا ہے۔ مجھے نہایت خوشی ہوتی ہے کہ اکثر احباب میرے نقطہ نظر کو پسند بھی کرتے ہیں اور تسلیم بھی۔ میرا نقطہ نظر کیا ہے؟ آئیے آج یہ گتھی بھی سلجھا دیتے ہیں تاکہ آئندہ اگر کبھی کسی بحث یا تحریر میں کوئی ایسی بات چل نکلے تو ہماری نیت اور عقیدے پر کسی کو شک کا گمان نہ گزرے اور صفائی طلب کرکے ایمان کی تلاشی کوئی ہم سے نہ لے۔

میں اپنے دوستوں کو ائمہ محدثین خصوصاََ اصحابِ صحاحِ ستہ (رحمہم اللہ تعالی رحمۃ واسعۃً) کی اس عظیم کاوش کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ انہوں نے یہ کتابیں فتنہ وضع حدیث کے اس زمانے میں لکھی ہیں جب ایک ایک فتنہ باز اور دروغ ساز واضع ہزاروں احادیث مشہور صحابہ کرامؓ کے نام پر نہایت ثقہ اور قابل اعتبار شخصیات کے نام پر گھڑ گھڑ کر خود ایجاد اسناد کے جوڑ توڑ سے بطورِ پیشہ ہمارے روایتی خطیبوں کی طرح بیان کرتے تھے اور بدلے میں لوگوں سے رقم بٹورتے تھے، ان پیشہ ور وضاع کے علاوہ مدینہ کے وہ منافق جو کھل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے تو تھے قاصر اس لیے وہ پھر اس دوسرے راستہ سے حملہ آور ہوکر اسلام کی بنیادیں کمزور کرنے کے درپے تھے۔ اسی طرح جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ساسانی امپائر کو شکست و ریخت کا سامنا پڑا اور فارس (ایران) اسلام کے زیرِ نگین آگیا تو مجوسی مذہبی پیشوا بھی مسلمانوں کا کھلم کھلا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے، سو انفرادی طور پر تو انہوں نے ابولولو فیروز مجوسی کے ہاتھوں امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی ٹھان لی اور خود اجتماعی طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر تابعین اور تبع تابعین کے لباس میں اسلام کے اندر روایت سازی کے ذریعے پیوندکاری کرنی شروع کردیں۔ تیسرا محاذ بلادِ شام سے اس طور پر کھلا جب بازنطین امپائر سیدنا عمرؓ ہی دور میں شکست تسلیم کیا تو پس پردہ انتقام کی یہی پالیسی نصرانی (عیسائی) مولویوں نے بھی اختیار کیں۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ تیسری صدی ہجری میں اصحابِ صحاح ستہ سے اللہ رب العزت نے یہ کام لے لیا کہ وہ احادیث میں سے اپنی فہم کے مطابق کھرے کھوٹے الگ الگ کردیں۔ اندازہ کیجیے کہ جب تیسری صدی ہجری میں ائمہ صحاح ستہ نے احادیث کی جانچ پڑتال شروع کی تو ذخیرہ روایت کی تعداد 14 لاکھ سے بھی کچھ اوپر کو پہنچی ہوئی تھیں۔ محدثین کرام سے اللہ تعالی نے یہ بہت ہی بڑا کام لے لیا کہ وہ مجعول (خود ساختہ اور من گھڑت روایات) کے اندر سے اپنے خداداد صلاحیت اجتہاد کے ذریعے صحیح روایات کو یکجا اور غلط روایات کو دودھ میں سے بال کی طرح نکال الگ کردیا۔ یقینا یہ ایک بہت بڑی خدمت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہے۔

یہ بات قابل تعجب ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام بخاری شریف تجویز نہیں کیا تھا بلکہ ”الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ صلی علیہ وسلم وایامہ“ رکھا تھا، مولانا مناظر احسن گیلانی کے نزدیک کتاب کے نام میں دو الفاظ (امور اور ایام) قابل غور ہیں، امام صاحب کے بعد انتہا پسند، غالی روایت پرست اہل الحدیث طبقہ نے اسے اصل نام سے ہٹا کر صحت کے اس مقام پر فائز کردیا کہ اس کے سامنے قرآن کریم کی قطعی صحت بھی متاثر ہوگیا اور وحی کی روشنی اس کے سامنے ماند پڑگیا۔ یہی فرق ہم میں اور عَبدُالرّوایات کے مابین ایک خطِ امتیاز ہے۔

ہم بخاری شریف کو اس کے جائز مقام کے مطابق ایک انسانی کاوش کا نتیجہ سمجھتے ہیں جب کہ روایت پرست انہیں”مثلہ معہ“ کا درجہ دیتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے وہ اپنے ماسوا روئے زمین پر رہنے والے تمام انسانوں کو منکرینِ حدیث خیال کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں لوگ خدا و رسول کو مانیں نہ مانیں اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں، بس امام بخاری یا دیگر اصحاب صحاح (رحمہم اللہ) کی کتابوں میں درج ایک ایک روایت کی محض صحت پر ایمان رکھنا ہی باعث نجات اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح کےلیے کافی و شافی ہے۔ اگر ایک روایت پر بھی غور و فکر کریں گے، اسے قرآن اور عقل کی عدالت میں پیش کرکے اپنی فہم کے مطابق اسے ناقابل عمل اور غیر مستند مانیں گے تو گمراہ اور منکرِ حدیث قرار پائیں گے۔ اب آئیے ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ خود اصحابِ صحاح ستہ رحمہم اللہ تعالی نے اپنی اپنی جو کتابیں مرتب کی ہیں، یہ سب کتنی کتنی روایات کے مجموعے کا نچوڑ ہیں اور کتنی روایات انہوں نے خود مسترد کی ہیں؟ مختصر جائزہ پیش خدمت ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کل چھ لاکھ روایات میں سے چند اخذ کرکے ترتیب دی ہے جس میں اب کل روایات کی تعداد بحذف مکررات 2763 ہیں۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تین لاکھ روایات میں سے اخذ کرکے تصنیف کی ہے جس میں بحذف تکرار کل روایات کی تعداد اس وقت 4348 ہیں۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ترمذی شریف تین لاکھ روایات کے نتیجے میں سے مرتب کی ہے، جس میں اس وقت کل روایات کی تعداد 3115 ہیں۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب پانچ لاکھ روایات میں سے ترتیب دیکر منظر عام پہ لایا ہے جس میں کل 4800 روایات ہیں۔

امام نسائی رحمة الله عليه کو اپنی جمع کردہ چار لاکھ سے اوپر روایات میں سے فقط ساڑھے چار ہزار روایات درست نظر آئے۔ ان ہی کو برقرار رکھا۔ باقی سب ڈیلیٹ۔

امام ابن ماجہ کی کتاب صحاح ستہ میں چھٹی نمبر پر ہے۔ انہوں نے دو لاکھ احادیث میں سے صرف 4321 روایات کو پیمانہ صحت کے مطابق پاکر برقرار رکھی ہیں، باقی سب فارغ۔

سوال یہ ہے کہ امام بخاری پانچ لاکھ نوے ہزار سے اوپر روایات کے منکر قرار پائے؟

یہی سوال امام مسلم کے بارے میں ہے کہ کیا انہوں نے دو لاکھ پچانوے ہزار احادیث سے انکار کر بیٹھے؟

یہی سوال امام ترمذی کے متعلق ہے کہ کیا انہوں نے تین لاکھ چھیانوے ہزار احادیث سے انحراف کیا؟

یہی سوال امام ابوداؤد کے متعلق ہے کہ کیا انہوں نے چار لاکھ پچانوے ہزار سے زیادہ احادیث سے منہ موڑ لیا ہے؟

یہی سوال امام نسائی کے بارے میں ہے کہ کیا انہوں نے تین لاکھ پچانوے ہزار احادیث کو مسترد قرار دیکر غلط اقدام اٹھایا؟

آخر میں یہی سوال امام ابن ماجہ کے متعلق ہے کہ کیا انہوں نے ایک لاکھ ساڑھے پچانوے ہزار روایات کے مسترد کرنے سے حُجیت حدیث کے منکر ٹھہرجاتے ہیں؟

نبی اور رسول ان تمام حضرات میں سے ایک بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ مجتہد ہیں۔ مجتہد اپنی تحقیق کا مکلف ہے۔ اس کی فہم تمام انسانوں پر لاگو نہیں صرف مقلد محض ان کی تقلید کریں گے، کیوں کہ وحی اور تنزیل کا دروازہ ختم نبوت کے ذریعے تو ہمیشہ کےلیے بند ہوگیا، یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری کے ہیں۔ کیا مطلب؟ یعنی کوئی بندہ آج بیٹھ کر قلم قرطاس میں لیں اور تین سو سال قبل کی تاریخ مرتب کرے۔

اگر ایک دو یا کچھ زیادہ روایت پر بحث کرنے سے بندہ منکر حدیث قرار پاتا ہے تو اصحاب صحاح ستہ نے مجموعی طور پر ملاکر 23 لاکھ 33 ہزار روایات جو مسترد کی ہیں۔ ان کے بارے میں غالی روایت پرست احباب کیا کہیں گے کہ وہ بھی منکرین حدیث، اہل قرآن یا پرویزی ہیں؟

ممکن ہے کہ کوئی دوست یہ کہے کہ مجموعہ روایات تو 14 لاکھ تھے، آپ نے 23 لاکھ تک کیسے پہنچائی؟ میں نے تو مسترد شدہ حدیثوں کو ملاکر تعداد ذکر کیا ہے۔ اگر مکررات مان لیا جائے تو موجودہ بخاری و مسلم میں جو متفقہ روایات ہیں، ان کی تعداد 2326 بتائی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم کے استاذ ہیں، انہوں نے اپنے استاذ گرامی کے 276 روایات کو معیارِ صحت کے خلاف قرار دیکر مسترد کردیا ہے اور اپنی کتاب میں جگہ ہی نہیں دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امام مسلم کا تعلق بھی منکرین حدیث، فرقہ اہل قرآن یا طبقہ غلام احمد پرویز سے تھا کیا؟

امام مسلم، امام بخاری کے اُن شاگردوں میں سے ہیں جو تادم حیات ان کے ساتھ رہے، بوقتِ وفات امام بخاری کے بہت کم شاگرد ان کے ساتھ تھے اور ان کے حق میں تھے یا ہمدردی رکھتے تھے، اساتذہ اور دیگر معاصر روایت پرست مولویوں نے تو ان کی زندگی اس قدر تنگ کردی تھی کہ امام بخاری زندگی کے آخری ایام نہایت دردناک طریقے سے بسر کی ہیں۔ بوقت وفات فقط امام مسلم ان کے ساتھ تھے جو خرطوم کے ایک تنگ و تاریک کمرے میں مولویوں کی شر سے محفوظ ہونے کےلیے پناہ لی تھی۔

امام بخاری رحمہ اللہ کے اساتذہ نے ان کو گمراہ قرار دیکر شرفِ تلمذ کے اعزاز سے ہی محروم کردیا تھا، ان کی زندگی کا یہ پہلو مولوی حضرات کبھی آپ کو نہیں سنائیں گے۔ بقیہ شاگردوں نے خود ان کے اساتذہ کی اس تلخ روش کو دیکھتے ہی شاگردی ترک کردی تھی۔ خلاصہ یہ کہ ایک امام مسلم بچتا ہے، ذرا امام مسلم کا اپنے استاذ گرامی امام بخاری کے متعلق ریمارکس پڑھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے علم دوست لوگ تھے، علمی تحقیق و احادیث رسول اللہ پر تنقید (یعنی روایات پرکھنے میں) کتنے آزاد، خود مختار و خوددار تھے؟ شاگرد کا استاذ کے متعلق کتنے سخت ریمارکس ہیں؟ چنانچہ امام مسلم کا جو مجموعہ حدیث یعنی مسلم شریف ہے۔ اس میں 1674 روایات ایسی ہیں جنہیں امام بخاری نے اپنی معیار تحقیق کے مطابق صحیح سمجھ کر کتاب میں درج نہیں کیا ہے۔ آئیے اب بات سمیٹ لیتے ہیں۔

تحقیق و جستجو کے نتیجے میں کسی روایت کو ناقابل قبول قرار دینے سے بندہ منکرِ حدیث قرار نہیں پاتا اور نہ ہی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ قرآن کریم کے برابر تواتر نقلی کا مقام کسی بھی روایت کو حاصل نہیں، خواہ روایت حدیث قدسی ہو یا غیر قدسی۔ یہی وجہ ہے کہ روایت کی بحث میں قوی، ضعیف، منکر، متروک، معضل، موضوع، قولی، فعلی، تقریری، مرفوع، موقوف، متواتر، مشہور، مستفیض، غریب، خبر واحد، عزیز، مقبول، مردود، صحیح، حسن، حسن لذاتہ، حسن لغیرہ، صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ، شاذ، معلول، معلق، مرسل، روایت الفاسق، روایت المبتدع، مدرج، مصحف، مقلوب، روایۃ کثیر الغفلۃ، روایۃ سی الحفظ، روایۃ الفاسق، روایۃ فاحش الغلط، مضطرب، مختلط، مبہم وغیرہ وغیرہ الفاظ آپ کو ملیں گے لیکن قرآن کریم کے کسی ایک آیت سے متعلق بھی ایک ایسی اصطلاح کہیں کسی بھی کتاب میں زیر بحث نہیں۔ یہاں پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی کا نقطہ نظر ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا۔

مولانا سید حسین احمد مدنی لکھتے ہیں:
”قرآن کریم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتراً منقول ہے یعنی اس کو نقل کرنے والے ہر زمانہ میں اس قدر نفوس کثیرہ رہے ہیں جن میں جھوٹ بولنے یا غلطی کرنے کا احتمال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے اس کا منکر کافر ہے اور اس کا ماننا عقلاً ضروری ہے اور احادیث خواہ قدسیہ ہوں یا غیر قدسیہ، ان کے نقل کرنے والے اتنے کثیر نفوس نہیں ہیں۔ اس لیے ان میں احتمال جھوٹ یا غلطی کا آتا ہے۔ اس لیے قطی الثبوت نہ ہوں گے اور ان کا منکر کافر نہ ہوگا۔“
(مکتوبات شیخ الاسلام جلد اول، مکتوب نمبر 38، صفحہ 100، ناشر مکتبہ دینیہ دیوبند سہارنپور)
یہی نکتہ مولانا عبیداللہ سندھی نے ان الفاظ میں دریا بہ کوزہ کردیا ہے کہ احادیث کی درست پوزیشن اناجیل کی سی ہے۔ یہی بات مولانا سید مَناظر احسن گیلانی کی ذریعے سمجھنا ہے تو ان کے نزدیک صحیح بخاری رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زرین کی مبارک تاریخ ہے۔ یہی مقام دیگر کتابوں کا بھی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔