شاعرِ انقلاب: مبارک قاضی – ٹی بی پی اداریہ

361

شاعرِ انقلاب: مبارک قاضی
ٹی بی پی اداریہ

بلوچی زبان کے معروف و منفرد شاعر مبارک قاضی بلوچستان کے ضلع تربت میں ۱۶ ستمبر کو انتقال کرگئے۔ قاضی کی تدفین انکے آبائی علاقے میں کی گئی۔

مبارک قاضی قوم پرست شاعر کی حیثیت سے اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ وہ 24 دسمبر 1956ء کو مکران کے علاقے پسنی میں کہدہ امان اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔

مبارک قاضی بلوچی زبان کے واحد شاعر ہیں جنہیں ان کی زندگی میں ہی عوام کی جانب سے بے پناہ محبت اور عزت ملی ـ جہاں ان کے عشقیہ اشعار کو بھرپور پذیرائی ملی وہاں ان کی مزاحمتی شاعری بھی چہار سو گونجتی رہی بالخصوص ان کی مزاحمتی شاعری کو ہر سطح پر سراہا و گنگنایا گیا۔

مبارک قاضی کی شاعری بلوچستان کا عکس ہے۔ قاضی کے اشعار میں بلوچستان کی فطری خوبصوتی، مہر ومحبت، بزرگوں کے اوصاف، قومی روایات، محکوموں کا درد، بلوچ وطن کے آزادی کا پرچار اور مزاحمت کا درس کثرت سے ملتا ہے۔

قاضی کی شاعری نے بلوچ ادب اور بلوچ مزاحمتی جدوجہد پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں، اُنہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیت کو بلوچ عوام کی مزاحمت اور امنگوں کو آواز دینے کے لیے وقف کیا تھا۔ قاضی کے اشعار محض فنی اظہار کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ سماجی تبدیلی کا طاقتور وسیلہ ہیں۔ ان کی شاعری نے بلوچ قومی آزادی کے لیے لڑنے والوں کے دلوں میں عزم کے شعلے بھڑکائے اور مزاحمت کا درس دیا۔

قاضی نے بہادری سے جنگ زدہ سماج میں جمود کو توڑنے والی نظمیں لکھیں جس کی قیمت انہوں نے پابند سلاسل ہوکر چکائی ہے۔

مبارک قاضی کو اپنی زندگی میں جوان سال بیٹے کمبر کی شہادت کا غم سہنا پڑا، جو اُن کے لئے قیامت سے کم نہ تھا لیکن قاضی اپنے ارادوں میں متزلزل نہ ہوئے اور مزاحمت کے مشعل کو گرنے نہ دیا۔

مبارک قاضی کی شاعری نے بلوچ سماج کے ہر طبقہ کو متاثر کیا اور اُن کی شاعری قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا رہا ہے۔ان کے اشعار نے بلوچ وطن کے آزادی کی متلاشیوں کے لیے آدرش کا کام کیا اور بلوچ تحریک سے پختہ وابستگی و اپنے اشعار کے زریعے آزادی کے پرچار نے انھیں مزاحمت کا علمبردار بنا دیا۔

مبارک قاضی کی ادبی صلاحیتوں سے ہٹ کر، اُن کے اشعار ایک جنگجو کے لئے مزاحمت کا درس ہیں، اُن میں جرات کی روشنی پنہاں ہے اور مظلوموں کے لیے طاقت کا ذریعہ ہیں۔ مبارک قاضی کی وراثت، آزادی کی جدوجہد کا درس ہے اور بلوچ تاریخ کے پنوں میں اُن کی شاعری مشعل راہ ہے، جو آنے والے نسلوں کو متاثر کرتا رہے گا اور ان کے اشعار آزادی و مزاحمت کا علمبردار رہیں گے۔