‏پاکستانی قبضہ گیریت کے خاتمے سے پہلے بلوچستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ بی ایس او آزاد

285

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کیچ سے طالب علم راؤف بلوچ قتل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قبضہ گیریت میں بلوچ سماج کے تمام ویلیوز خطرے میں ہیں اور پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے کیلئے ہمیشہ سے ان کا ہاتھ مضبوط کرتا آ رہا ہے۔ راؤف بلوچ کے قتل میں ملوث شاہ میر پیدارکی ریاستی سرپرستی میں قائم ایک ڈیتھ اسکواڈ کا سرغنہ ہے اور کیچ میں اس سے پہلے بھی ان کے ہاتھ کئی بلوچوں کے خون سے رنگے ہیں۔ شاہ میر و اس کے گروہ نے اس سے پہلے بھی بہت سے بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا ہے اور بلوچ قومی تحریک کے حالیہ ابھار سے خوفزدہ ریاست اب پھر سے مذہبی ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے قتل و غارت کا بازار گرم کر رہا ہے۔

‏ترجمان نے کہا کہ راؤف پہلا نوجوان نہیں جنہیں مذہبی شدت پسند گروپس کے ذریعے قتل کروایا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی بلوچ سیاسی کارکنان اور تعلیم یافتہ اساتذہ کو دشمن نے اپنے مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے قتل کیا ہے۔ استاد پروفیسر صباء دشتیاری ہو یا زاہد آسکانی دونوں کو اس سے پہلے بھی فوج نے مذہبی شدت پسند گروہ کے نام پر قتل کیا ہے البتہ قاتل ایک ہی ہے اور وہ پاکستانی ریاست ہے۔ بلوچ قومی تحریک کا کاؤنٹر کرنے کیلئے سماج کے اندر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ریاست نے ایک مرتبہ پھر اپنے مذہبی گروہوں کو متحرک کر دیا ہے۔ جہاں خضدار و گرد و نواع میں شفیق مینگل جیسے سفاک قاتل جو مذہب کا نقاب اوڑھے ہوئے ہیں واپس متحرک ہو چکا ہے وہیں اب شاہ میر پیدراکی کو ایکٹیو کر دیا گیا ہے ان کا بنیادی مقصد عام عوام کا توجہ قومی تحریک سے ہٹا کر معاملات کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں لیکن قبضہ گیر کی یہ پالیسیاں ناکام ہونگے کیونکہ بلوچ باشعور ہو چکا ہے اور اپنے دشمن کا چہرہ پہچان چکا ہے۔ ان شدت پسند گروپوں کو واپس ایکٹیو کرکے ریاست بلوچستان بھر میں خون کی ہولی کھیلنا چاہتا ہے لیکن بلوچ نوجوان قومی قبضے کے خاتمے کے خلاف تحرک کا حصہ بنیں۔ قبضہ گیر کی خواہش یہی ہے کہ ان جیسے شدت پسند گروپس کو ایکٹیو کرکے بلوچ نوجوانوں کو ورغلایا جائے لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک بلوچ سرزمین پر پاکستانی قبضہ برقرار رہے گا اس وقت تک بلوچستان میں کوئی بھی بلوچ نوجوان ریاستی ان مظالم سے محفوظ نہیں رہے گا۔

‏ترجمان نے بیان کے آخر میں نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوان اپنی تونائیاں قومی آزادی کے جدوجہد پر صرف کریں جب تک بلوچستان ایک خودمختیار و آزاد ریاست کی صورت میں قائم نہیں ہوگا اس وقت تک بلوچستان میں ریاستی فورسز نوجوانوں کا یوں قتل عام جاری رکھے گا۔ ریاست یہ تمام واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے کی تحت کر رہی ہے تاکہ بلوچ نوجوانوں کا توجہ قومی جدوجہد سے دور ہو جائیں۔ ریاستی ڈیتھ اسکواڈز چاہے مذہبی گروہوں کی صورت میں ہوں یا منشیات فروش یا قبائلی شکل میں سب بلوچ قومی بقاء کیلئے خطرہ ہیں اور سب کے خلاف قومی جدوجہد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔