پاکستانی حکام کی جانب سے مسلسل الزامات کے بعد طالبان حکومت کے ترجمان کا موقف سامنے آگیا۔ پاکستان اپنی سیکیورٹی مضبوط کرنے کی بجائے افغان عوام پر الزام عائد کررہی ہے۔ افغانستان کسی بھی ملک بدامنی نہیں چاہتا۔ الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں – ذبیح اللہ مجاہد
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ افسوسناک واقعات کے بعد ایک بار پھر پاکستانی حکام نے اپنے ملک کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کی بجائے ان واقعات کی ذمہ داری افغان عوام پر عائد کی ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان یہ الزامات مسترد کرتی ہے اور پاکستانی حکام کو یاد دلاتی ہے کہ افغانستان طویل جنگوں سے نکلا ہوا ملک ہے اور کسی بھی ملک خصوصاً کسی پڑوسی ملک میں ہرگز بدامنی نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ایک بار پھر اپنا اصولی موقف دہراتی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افغانستان خطے کے ہر ملک کی سیکیورٹی کی ناکامی کا ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا خطہ بدقسمتی سے گذشتہ بیس برسوں تک امریکہ کی قیادت میں بیرونی جارحیت اور خطے کے بعض ممالک کی غلط سیاسی پالیسیوں کا شکار رہا جس کے اثرات اب تک محسوس کیے جارہے ہیں۔
ذیبح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان کو اپنے امن و امان کی صورت حال پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس کا حل اپنے گھر میں تلاش کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ اسلامی سال (1444ھ) کے دوران افغانستان میں مختلف آپریشنز کے دوران داعش کے رکن 18 پاکستانی شہری ہلاک ہوچکے ہیں جو ہماری ملک میں حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث تھے۔ اس کے علاوہ درجنوں زندہ گرفتار کیے گئے ہیں۔ جس کے تمام تر ثبوت اور شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم پاکستانی فریق کو ذمہ دار ٹھہرائیں افغان حکومت نے اپنے حفاظتی انتظامات مضبوط کیے ہیں جس کے نتائج بھی الحمد للہ دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یاد رہے کہ اگر کوئی پاکستان میں حملہ کرتا ہے یا داعش کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا خون بہاتا ہے تو اس کے حل کے لیے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے۔ الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ جس طرح سے افغانستان اور خطے میں علمائے دین اور مدارس کے خلاف حملوں کا ایک بڑا منصوبہ جاری ہے اس کے بارے میں ہمارے انٹیلی جنس ادارے پہلے سے معلومات حاصل کرچکے ہیں اور اس حوالے سے خطے کے ممالک سے معلومات بھی فراہم کی ہیں مگر افسوس کہ کچھ ممالک نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے ہیں۔
“امارت اسلامیہ ایک بارپھر تاکید کے ساتھ کہتی ہے کہ ہم پاکستان میں کسی قسم کے حملے کی حمایت نہیں کرتے اور نہ کسی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ البتہ پاکستان کے اندر حملوں کی روک تھام ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس ملک کے اندر موجود انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے جو اس کے لیے اپنے ملکی بجٹ کا بڑا حصہ صرف کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کریں اور اپنے لوگوں اور عالمی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد نہ کریں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گذشتہ تقریباً دو سالوں میں جب سے افغانستان میں ایک آزاد و خودمختار حکومت قائم ہوئی ہے افغانستان اور خطے میں امن و امان کی صورت حال میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ اگر صرف پاکستان میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تو پاکستان کو چاہیے اس کا حل بھی اپنے ملک میں تلاش کرے۔