نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (تیرہواں حصہ) ۔ عمران بلوچ

194

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( تیرہواں حصہ)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آرٹیکل کے بارہویں حصے میں، میں نے حالیہ پندرہ جولائی کو منعقدہ پروگرام بیاد شہداء بلوچستان خضدار میں ایکس کیڈرز کی جانب سے جس کا انعقاد کیا گیا تھا، اس پروگرام کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے چند سوالات اٹھائے تھے کہ تعزیتی ریفرنس اور شہداء کی جدوجہد، ان کی تاریخ کی جانب نوجوان نسل جن پر یہ ایکس کیڈرز تنقید کرتے نہیں تھکتے اس جانب ان کا توجہ مبذول کرانے کی خاطر کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا، انھوں نے نہ کوئی پمفلٹ شائع کرایا، نہ کوئی اسٹیکر بنوایا، نہ پوسٹر چھپوایا اور نہ ہی کوئی بینر یا پینا فلیکس بنوایا، تو پھر اس پروگرام کے انعقاد کرانے کا مقصد اور پروگرام کو بہتر انداز میں ترتیب نہ دینا مقصدیت کا نہ ہونا، وجوہات کیا ہوسکتی ہیں ؟ عمومی سیاسی روایات کو پامال کرتے ہوئے شہدا کی تصویر کے بجائے ایک فرد سے تعزیتی ریفرنس کی صدارت کروانا ، پروگرام کے دوران اسٹیج پر یا ہال میں کہیں بھی شہدا کی تصویر کا نہ لگنا ، جاری کردہ پریس ریلیز میں شہدا کی تاریخ و جدوجہد کا زکر تک نہ کرنا۔

دلچسپ پہلو یہ ہیکہ شہداء بلوچستان آزادی پسند تھے، ان کی جدوجہد آزادی کے لئے تھی، ان کا طریقہ جدوجہد اور مقصد دونوں ان سے زیادہ دشمن نے انھیں پھانسی دیکر خود ہی واضح کرتے ہوئے پتھر پر لکیر کھینچنے کے مترادف ہمیشہ کے لیے رہتی دنیا تک تاریخ کے پنھوں میں لکھ کر انھیں ان کی جدوجہد و عظیم قربانی کو امر کردیا ہے، پھر بقول ان ایکس کیڈرز کے جمہوری، پارلیمانی، پرامن، سب پارٹیاں ، پارٹیوں کے پروگرامز جن کے لیے یکساں اور قابل احترام ٹہرے، مسلح جدوجہد کرنے والے جن کے لیے انتہا پسند اور مہم جو ٹہرے ان کا شہداء بلوچستان سے کیا تعلق؟ تو پھر ان ایکس کیڈرز نے اپنی پرانی خانہ پری والی ریت کو ایک بار پھر دہراکر قوم کی آنکھیں میں دھول جھونکنے کی کوشش کیوں کی؟میری معلومات کے مطابق اس کا سادہ سا جواب ہے، براہوئی میں کہتے ہیں” یاراتا کسر نیامانے” پر اب وہ دور کب کا گزر چکا، یاروں کا قافلہ ایک دن پہلے خضدار پہنچا ، خضدار شہر پہنچنے کے بعد پریس کلب یاترا ہوئی اس دوران سوشل میڈیا پر ایک انٹرویو نشر ہوا، اس انٹرویو کا خلاصہ میں فلحال یہاں بیان نہیں کرونگا، ہاں البتہ پروگرام سے پہلے ہی بی این پی مینگل خضدار کی قیادت نے اپنے ونگ کے ایک سابقہ عہدیدار پر مختلف سیاسی الزامات کمیٹی کے سامنے رکھ کر پروگرام میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا، میں یہاں ان الزامات پر بھی نہیں جانا چاہتا کہ لوہار جانے انگار جانے۔ البتہ دلچسپ معاملہ تب رونما ہوا جب خضدار انتظامیہ اور ایکس کیڈرز کے پر امن، پارلیمانی جدوجہد کرنے والوں کا تعزیتی ریفرنس کے حوالے سے ملاقات ہوا، انتظامیہ سے مراد وڈے لوگ، سوال یہ اٹھایا گیا کہ جی جن کی برسی آپ لوگ منا رہے ہو وہ تو ریاست مخالف لوگ تھے، وہ تو ریاست کے مجرم تھے اور دہشت گرد تھے ،اس لیے انھیں ان کی جرم کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی تو پھر آپ لوگ ان کے حوالے سے کوئی پروگرام کس طرح رکھ سکتے ہیں، سوال اٹھتا ہے کہ باتوں کا حل اور جواب کیا ملا ہوگا کہ تمہاری ایسی کی تیسی جو تم ایسی بات کرتے ہو، ہم ایکس کیڈرز، سارے سابقہ چیئرمین، ہر طرح کے فن و ہنر سے باخبر، کوئی چار سال، کوئی چھ سال تو کوئی چودھ سال چیئرمین رہا ہو ہمارے سامنے ایسی بات کرنا، یہ تو شہدا کی بے حرمتی ہے اس کا تو حساب دینا پڑیگا، ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا، ظاہرہے، پر امن، جمہوری، پارلیمانی اور دلیل والے لوگ جو ٹہرے۔

مجھے یاد ہے سنگل بی ایس او کا انضمام عمل کے بعد جلسوں کا سلسلہ جاری تھا ، خضدار میں مرکزی جلسہ ہونا تھا، جلسے کی اجازت لینے انتظامیہ کے پاس گئے مرکزی دوست ساتھ تھے ڈی سی آفس میں ایک بلوچ ملازم ملا انھوں نے یہ کہتے ہوئے ہم سب کو ڈانٹ پلاکر واپس کردیا کہ بی ایس او اپنے جلسوں کے لیے کب سے ریاست سے اجازت لینے لگا، دوست تو درخواست بھی لکھ چکے تھے۔ تو اب بھی بات وہی تھی کہ بی ایس او کب سے اجازت لینے لگا؟ پھر خیال آیا کہ اب تو یہ سارے ایکس کیڈرز، ملازم پیشہ سفید پوش، کچھ تو بی ایس او کے وقت بھی مرکزی عہدہ اور ملازمت کا فن دونوں ساتھ ساتھ چلاتے تھے، اب تو جمہوری اور پارلیمانی بھی ہوگئے ہیں۔بھلا یہ اپنا کیریئر ، مطلب سفید پوشی کیونکر اور کس کے لئے خراب کریں، بس ایک پروگرام ہی تو کرنا ہے، اس میں کیا ہے، فوٹو بناکر سوشل میڈیا پر دینا ہے اور ایک پریس ریلیز جاری کرنا ہے جس کا ان کے پاس بھر پور تجربہ ہے۔ مجھے یہاں ایک سوال سوجھ رہا ہے کہ اتنی لاشوں کے بعد , مسنگ پرسنز کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے ، ایک عظیم تہزیب اور تاریخ کے مالک ہوتے ہوئے ، خاص کر ایک ایسی تحریک جو ہر ایک کی آنکھوں میں کٹکتی ہو، دشمن اور اس کے ہواریوں کے حافضوں پر ہر وقت سوار ہوکر انھیں نفسیاتی بنا چکا ہو، اس سب کے باوجود یہاں سیاست اور سیاسی پروگرامز کے نام پر دکانداری کرنا اتنا أسان کیوں ہے؟ وہ خیر بخش مری جو قوم کو سرزمین بچانے کا سبق دیتے دیتے اس دنیا سے کوچ کرگئے، انھوں نے بات تو سر زمین کو ، قومی وسائل کو، قومی تاریخ و تہذیب کو بچانے کی پڑی پر آج ان کا اپنا آخری آرام گاہ ان راجہ گدوں سے کیوں محفوظ نہیں ہے؟ کوئی بولنے والا ، کوئی پوچھنے والا بھی نہیں، آخر کہاں ہیں سیاست پر قبضہ کرکے انھیں حقوق دلانے والے؟ نواب صاحب نے ٹھیک کہا تھا یہ سب پتے باز، بھڑک باز، پریس ریلیز اور کانفرنس کے نام پر ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے لوگ ہیں جن کا کام دشمن کے کام کو آسان کرنا اور قومی جزبات کو ضرب لگاکر ٹھنڈا کرنا ہے، یہ سارے ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بناکر سیاست کو کیوں پراگندہ کررہے ہیں؟ بیان آتا ہے واحد قومی جماعت، کچھ سوشل میڈیا پر انقلاب لانا اور پارٹی چلانا چاہتے ہیں، بھئی پھر تم میں اور کالوناہزر میں کیا فرق؟ وہ بھی تو کہتا ہے بائیس کروڑ عوام ، آج تک پتا نہیں چلا یہ بائیس کروڑ کون ہیں اور کس کے پاس ہیں؟ یہاں بھی ایسا کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے، سب فرزند ہیں، سارے بابا ہیں، سارے اندھے لوگ راشون ہیں، واحد قومی پارٹی، قومی رہنما۔ قوم یقین کرے تو کس پر کرے اور کیوں کر کرے؟۔ الیکشن اتے ہی واحد سیاسی پروگرام مسنگ پرسنز پر بولنا، پریس رلیز دینا بچتاہے، مسنگ پرسنز کا مسلہ سیاسی مسلہ ضرور ہے پر یہ کوئ سیاسی پروگرام نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ ایک عالمی مسلہ ہے جسے صرف پریس رلیزوں میں، تصویروں میں ڈھانپ کر پریس کلبوں کے سامنے سجا کر عالمی اور سیاسی مہمہ بننے نہیں دیا جارہا ہے۔

چلے ہیں شہدا کے نام پر سیاست کرنے اور سجدہ زہن ہیں ایک کالے بابو ڈی سی کے سامنے اجازت لینے، تبھی میں عرض کررہا تھا یہاں ڈیڈھ انچ کی مسجدیں بنانا اتنا اسان کیوں ہے، سوچتا ہوں روزانہ دوستوں کے ساتھ ہوٹل پر بیٹھ کر چائے پیوں، اپنی تصویر ان سے کھنچواکر سوشل میڈیا پر دوں نہ کیمرے کی ضرورت نہ کیمرہ مین کی، بس سوشل میڈیا پراپنی تصویر اپ لوڈ کرکے اسے سیاسی جماعت کا نام دیکر بیان جاری کروں واحد قومی رہنما اور سب سے بڑی قومی پارٹی، ویسے بھی پانچ افراد اکھٹے کرکے ایک بیان جاری کرنا ہے، لفظ ازادی اور مسنگ پرسنز کا تڑکا ڈالنا ہے ، قوم نے کونسا تحقیق کرنا ہے، کونسا تنقید کرنا ، سوال اٹھانا اور کردار پرھکنا ہے، پھر سوچا یہ سب ویسے ہی روزانہ کر رہا ہوں پھر زحمت کرنا اور تکلیف اٹھنا پانچ لوگ اکھٹے کرکے چائے پلانا جیسے جوکھم والا کام کون کرے۔آخر اجازت لینے ڈی سی کے پاس ہی جانا ہے جو کہ خود کسی اور کا پیغام رساں ہو۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔