تربت سول سوسائٹی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تربت میں نوجوان طالب علم اور پرائیویٹ سکول کے ٹیچر عبدالرؤف پر توہین رسالت کا الزام عائد کرنا اور انکا علماء کرام کے جرگے میں آتے ہوئے بیدردی سے قتل کردینا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ ایسے واقعات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، کیچ کے عوام کو مذکورہ واقعے سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ تربت شھر میں کچھ سالوں سے مسلسل توہین مذہب اور رسالت کے الزامات عائد کرکے خودساختہ جرگوں کے ذریعے نوجوانوں کو توبہ تائب اور معافی کے لیے طلب کرنا باعث تشویش ہے، اس سے قبل ایسے دو سے تین معاملات میں فن کاروں اور شعبہ زندگی سے وابستہ دیگر شخصیات کے خلاف توہین رسالت کے الزامات لگائے اور انہیں خودساختہ جرگوں میں طلب کرکے ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھا گیا حتیٰ کہ فن کاروں کو توبہ تائب بناکر تجدید طلاق پر مجبور کیا گیا جو سماجی سطح پر ایک نیچ حرکت ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ان واقعات پر نہ کسی سیاسی جماعت اور نہ ہی کوئی مذہبی جماعت نے ری ایکشن دکھائی حتیٰ کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس بھی اس حساس نوعیت کے معاملات میں خاموش تماشائی بنے رہیں، اس کا نتیجہ نوجوان طالب علم عبدالرؤف کے قتل کی صورت میں سامنے آیا جو انتہائی سنگین اور خطرناک ہے۔
ترجمان نے کہاکہ مکران مذہبی رواداری کا خطہ ہے، یہاں پر مذہب و عقیدے کی تفریق کے بنیاد پر کبھی انتہاپسندانہ واقعات پیش نہیں آئے ہیں۔ کیچ میں ایسے واقعات کا پیش آنا باعث تشویش ہے، جسکی تربت سول سوسائٹی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جو خودساختہ جرگہ حکومت، انتظامیہ اور ملکی قوانین کو پاؤں تلے روندھ کر عبدالرؤف کے لیے بٹھایا گیا ان کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو شامل تفتیش اور تحقیق کیا جائے۔
تربت سول سوسائٹی کے ترجمان نے جھل مگسی میں کسان امداد فقیر جویہ کے قتل کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتول کے ورثاء کو احتجاج کرنے نہ دینے پر انتظامیہ نے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر فریق کا کردار ادا کیا جوکہ جمہوری و آئینی حقوق کے منافی ہے۔
تربت سول سوسائٹی نے دونوں واقعات پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی مانگ کی ہے۔