جذبہِ حب الوطنی،نظریہِ راہِ حق,اور فکرِ سمعیہ ۔ ڈاکٹر ہیبتان بشیر

596

جذبہِ حب الوطنی،نظریہِ راہِ حق,اور فکرِ سمعیہ۔۔۔

ڈاکٹر ہیبتان بشیر
دی بلوچستان پوسٹ
 

ایک ایسا انسان جسے شعور اور علم سے دور رکھا یا وہ خود دور رہا ہو اس میں زندگی کے اصل معنی اس کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، اس کے لئے زندگی بس وہی رہتی ہے جہاں اسکی سوچوں کی حد ہوتی ہے، جہاں وہ محدود دائرے اور مقام میں رہ کر اسی محدود سوچ اور مقام کو اصل سمجھ کر اسی ہی میں فنا ہوجاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ زندگی کی اصل شکل اور مقصد کیا ہوتی ہے۔ بے علمی اسے معاشی ،سماجی ،تہذیبی اور عقلی طور پر اس قدر مفلوج اور پست کرتی ہے کہ وہ انسانی معیار زندگی سے کہیں دور نیچے زندگی بسر کرتی ہے،اور اسی ہی کو زندگی سمجھتی ہے۔ اس زمین پہ ایک انسان پہ سب سی بڑی ظلم اور جبر یہی ہے کہ ایک انسان کو شعور ،علم اور عقل و حکمت سے دور کیا جائے۔اور اولین فرض ان قوتوں کے خلاف جنگ جو شعور،علم اور عقل و حکمت کے سامنے بند باندھے ہوئے ہیں۔اور عظیم انسان وہی ہیں جو مزاحمت بنکر شعور،علم اور عقل و حکمت کی سربلندی کے لئے اپنے ذات اور ذات میں ہر خوشگوار لمحوں کی قربانی دیتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ہر مختلف دور اور تہذیب میں مختلف نظریات کے درمیان تصادم رہا ہے،کہیں ایسے نظریات آئے جنہوں نے انسانی شعور کو مفلوج اور اپاہج بنایا اور انکے بر خلاف شعور کو بیدرا کرنے کے لئے ایسے نظریات ابھرئے جنہوں نے انسانی سوچ کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور انسانی شعور کو مجبور کیا کہ وہ روایاتی ،فرسودہ اور مردہ خیالات کو چھوڑ کر سچ اور سچائی کی تلاش میں اپنی ذہنی قوتوں کو استعمال میں لائے۔انہی ذہنی قوتوں نے انسان کی شعور اور فکر کو بیدار کیا ،جتنی ہی ذہنی قوتیں بڑھتی گئیں انسانی شعور اورفکر بلندی کی سطح پہ اونچا ہوتا گیا۔اسی فکری بلندی کی وجہ سے انسان فرسودہ خیالات ،روایات اور رسومات کے بر خلاف جدید فکر اور نظریات سے انسانی سوچوں کو وسعت دیتا رہا اور اپنے فکر اور عمل سے انسان کو قدامت پرستی، غلامی، جبر، استحصال ، ناانصافی، نابرابری اور لا علمی کے زنجیروں سے آزاد کراتا رہا اور ان کے بر خلاف ظالم جابر جاہل لا علم اپنی ذاتی گروہی مفادات کے لئے ان سوچوں کو کچلنے کے لئے انتہا تک ظلم کرتے رہے اور کررہے ہیں، وہی سچ اور جھوٹ کی جنگ ابھی بھی جاری و ساری ہے،اور یہ بات بھی تاریخ میں درج ہے سچ اورسچائی کی راہیں مشکل، دشوار اور تکلیف دہ ضرور رہی ہوں لیکن فتح ہر وقت سچ اور سچائی کی ہوئی ہے، شاہد اکثر وقتی طور پر بعض میدانوں میں میں فریبی جیت جھوٹ کی ہوئی ہو لیکن مدتوں بعد،زمانے گزرنے کے بعد فتح سچ اور سچائی کی ہوئی ہے اور اس فتح کی بنیاد وہ سوچ و نظریات تھے جنکی بنیاد پہ کسی عظیم انسان سچ اور سچائی کے لئے خود کو قربان کرتا ہے۔

۲۴ جون ۲۰۲۳ کو ایسی ہی تاریخ اور نظریے کی جنم ہوئی جس نے ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین اور ہمارے سروں کے اوپر آسمان کو ہلا ڈالا ۔سمعیہ کے سینے میں شعلوں کی طوفان نے ہمارے روحوں، دلوں اور ذہنوں کو ایسی حرارت عطا کی کہ جسکی تپش دشمن کو نیست کردے گی۔اور فتح اس فکر و نظریہ ،سچ و سچائی کی ہوگی جس مقصدِ سچ اور سچائی کے لئے سمعیہ قربان ہوئی ہیں۔

جسم سو بار جلے تب بھی وہی مٹی ہے
روح ایک بار جلے تو وہ کندن ہوگئی
روح دیکھی ہے ،کھبی روح کو محسوس کیا ہے؟
۔گلزار

سمعیہ جذبہ محبت الوطنی سے لیس اور نظریہِ راہ حق پہ اپنی زندگی کی ہر عیش و حسرت کو قربان کرکے ایک ایسی تاریخ اور نظریے کو جنم دیتی ہیں کہ جسکی بنیاد پہ ہم حوصلوں اور جذبوں سے پرُ ہزاروں سال ہمت اور بہادری کے ساتھ دشمن کے ساتھ لڑسکتے ہیں۔

نظریہِ راہِ حق ایک ایسا نظریہ ہے جسکی بنیاد پہ ہم اپنی زندگی کی ہر تمنا ،حسرت،خواہش ،لذت اور زندگی کی عیاشیوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کی درد و تکلیف کو اپنے سینوں میں بٹھاکر دشمن پہ آگ اور شعلہ بنکر اس پہ برستے رہیں گے۔ نظریہِ راہِ حق ہمیں یہ بنیاد فراہم کرتا ہے کہ ہم اور قوت اور حوصلوں کے ساتھ جدت اور شدت کے ساتھ دن بہ دن نئے جذبوں اور ولولوں کے ساتھ جانبِ منزل قدم بڑھاتے رہیں۔

تربت میں ماہِ جون کی ان گنت صبحوں میں سے ایک خاص اور خالص صبح ۲۴ جون تربت کی تپش اور گرمی میں ایک فکر اور نظریہ بارود ،شعلوں اور آگ سے جسم کے ذرے ذرے ہونے سے جنم پاتی ہے۔جو کئی سالوں کی انتظار کے بعد خوشبو کی لہروں کے ساتھ فضائے تربت میں جذب اور تحلیل ہوجاتی ہے،روح ِ امیر جان (شہید جمال جان )فضائے مکران میں سمو کا استقبال کرتی ہیں اور خاکِ مکران خوشبوِ امیر جان کو اپنی زروں میں شامل کرکے خود فکرِ امیر بن جاتی ہیں ،جو فکر امیر جان نے سچ ثابت کرنے کے لئے اپنے خون کا رس زمین کو پینے کے لئے دی تھی اسی خون سے جو فکر ابھری تھی ویہی فکر ہزاروں فکریں لئے کر ،خوشبو بن کر فضائے تربت میں ہمشہ ہمیشہ کے لئے اپنی موجود ہونے کی احساس دلاتی ہیں اور ہر دور ،ہر زمانہ اور ہر تہذیب میں دیتی رہیگی ۔

مہرِ توتک تربت تم پہ ہر وقت ناز کرتی رہئے گئی کہ اتنی سالوں کی انتظار اس نتظار میں ہر پہل ہر ساعت ایک دستان پھر وہ دن وہ لمحہ جس لمحہ تمہیں دشمن کا انتظار ہے، جس لمحہ تم فدا ہوجاتی ہو اس ایک لمحے میں ہزار داستانیں لپٹی اور چھپی ہوئی ہیں ۔اتنی گرمی اور تپش میں تم کہیں مشکل اور تکلیف دہ راستوں سے ہوکر اپنی منزل تک پہنچ کر دشمن کو مردار کرتی ہو،اگر خونِ تربت میں وفا رہی تو فدائی سمو تمہاری یہی فکر اور نظریہ دشمن سے لڑنے کے لئے ہزاروں سالوں کے لئے گافی ہے۔

وہ نظریہ ہے نظریہ راہ حق،اسی نظریے کی بنیاد پہ ہمیں خود میں اتنی ہمت اور جرت پیدا کرنا ہے کہ تاریخ میں اس نظریہ کی بنیاد پہ ہر مظلوم اور محکوم ظالم اور جابر سے لڑ کر سرخرو ہو ۔بقول فدائی سمعیہ بلوچ “مجھے یقین ہے یہ جہد یہ جنگ آگئے بڑھے گا آپ لوگ اسے آگئے بڑھاو گئے،کیونکہ کہ ہم حق پر ہیں، ہمیں اپنی آنکھیں کھل کر اپنے دشمن کو دیکھنا ہے۔ہمارا دشمن ہم سے زیادہ طاقتور ہے لیکن ہم حق پہ ہیں ہمارے پاس جذبہ ہے تب تک وہ ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔”

جو علم و زانت ہمیں راہ حق کا درس دیتا ہو پھر بھی ہم اپنی خوف بزدلی ڈر اور ذاتی خواہشات کی خاطر چپ ہوں یا خود کو مطمن کرنے کے لئے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوں تو ہم سے بڑا منافق اور مکار کوئی نہیں ہوگا اور تاریخ کا جبر ہم پر ایسا ٹوٹ پڑئے گا کہ ہم اپنی ہی وجود میں کہیں بھی نہیں ہونگے۔

سچ علم و زانت کا اصل راہ نظریہِ راہ حق پہ قربان ہونا ہے جسکی خاطر سمعیہ قربان ہوجاتی ہے اور اسی فکر اور نظریہ کی سچائی کی گواہی دیتی ہیں۔فکرِ سمعیہ نظریہ راہ حق کو جنم دیتی ہیں اب ہمیں اسی نظریہ کو لیکر منزل تک جانا ہے۔فکرِ سمعیہ میں راہِ حق کا نظریہ،صبر و برداشت،مہر و وفا،جذبہِ محب الوطنی ،جذبہ و حوصلہ اور انتہا قربانی کے سارے رنگ جوڑ کر ایک سوچ کو جنم دے رہے ہیں اور وہ سوچ ہے آزای،ہمارے وطن کی آزادی،ہمارے نسلوں کی آزادی،ہمارے وجود کے ذرے ذرے کی آزادی،آھو ہم بھی اس فکر میں جوڈ جائیں اور آزادی کے اس سچ اور سچائی کے کارواں میں شامل ہوجائیں۔اور اس ظالم کو اپنی پاک سر زمین سے باہر نکالنے کے لئے قربانی کی انتہا تک جائیں ، جیسے بقول سمعیہ “آج ہمارے سامنے کتنی ساری مثالیں ہیں،اسکے باوجود بھی ہم تھوڑا سا بھی آگئے بڑھتے ہیں اسکے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ بس ہمارا تو یہیں تک تھا، ہم اس سے زیادہ قربانی نہیں دئے سکتے،نہیں میرے بہنوں نہیں میرے بھائیوں یہ قربانی نہیں ہے ،یہ تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ تو ابھی شروعات ہے ، ہمیں آگئے بہت سے قربانیاں دینا ہے، ہمارے پاس تھوڑا سا کچھ بھی بچے گا وہ بھی ہمیں قربان کرنا ہوگا۔ہم جب تک قربانی دیتے رہیں گئے جب تک ہمارا قوم ایک آزاد قوم نہیں بن جاتا۔”

واقعی جو شعور ہمیں راہِ حق پہ قربانی کے لئے تیاری کرتی ہے، اگر واقعی ہی وہ شعور پختہ شعور ہے تو اس شعور کے لئے قربانی کی حدیں نہیں ہوتی، وہ شعور ہمیں اپنے مقصد کے لئے ہمارے وجود کے ذرے ذرے کو قربان کرنے پہ اور تسکین اور مسرت محسوس کرئے گئی۔ راہِ حق پہ ہمیں ہر قربانی کے لئے اپنی شعور کو پختگی کے معراج تک پہنچانا ہے، جہاں ہمیں اپنی ہر ذاتی لذت، حسرت، خواہش، تب، مزاج،رویہ، سوچ، ترجیحات، رجحانات اور ہر عمل کی قربانی دینی ہوگی۔ یہ وہی پختگی معراجِ شعور ہے جہاں سقراط اپنی حق پرستانہ فطرت کی وجہ سے حق کی خاطر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے اور ہزاروں سال بعد بھی آج بھی ہمارے دلوں میں امر ہیں۔

سمعیہ کی جسم سے جو بارود چنگاری بنکر دشمن پہ دھماکے سے پھٹتا ہے وہ وہی شعور کی معراج ہے جس شعور کی معراج پہ پہنچ کر سقراط زہر کا پیالہ پیتا ہے،عیسی صلیب پہ چڑھتا ہے ،حسین یزید کے خلاف لڑکر شہادت پاتا ہے،بھگت پھانسی کے پھندے کو چومتا ہے،عمر مختار لیبیا کے صحرا میں امر ہوتا ہے اور چے بولیویا کی جنگلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی اور انقلاب کا روح بن جاتا ہے۔ یہ وہی شعور اور سوچ ہے جو زندگی بنکر انسانی سوچوں کو ہلاکر پوری انسانی سوچوں کو نئی راہوں پہ رکھکر انسانی سوچوں کو درست سمت پر بنیادیں فراہم کرتا ہے اسی طرح سمعیہ نور بنکر اندھیروں میں شروعاتِ روشنی بنکر صدیوں تک ہماری نسلوں میں سفر کرتی رہے گی۔سمعیہ نور تھی،نور کی گواہی دئے گئی اور حقیقی نور بن گئی۔ اس حقیت اور مظہر کا نظارہ ہم اس وقت کرسکتے ہیں جب ہم میں اپنی خوف،ڈر اور بزدلی کا اصل چہرہ دیکھنے کی ہمت ،حوصلہ اور جرت ہو۔

محب الوطنی کے جذبہ سے لیس ، راہِ حق پہ جس منزل کے لئے روحِ سمعیہ قربان ہوئی ہیں اس فکر کے لئے قربان ہونے کی جذبے کو سمجھنے کے لئے میں کہتا ہوں آج کی سیاسی نظریات،نفسیاتی حکمت اور جدید فلسفہ کی علم کم رہے گی ،اس سوچ اور فکر تک پہنچنے کے لئے جدید تحقیقی اداراوں کی ضرورت رہے گئی۔کیونکہ ایک بلوچ فدائی نہ اپنی زندگی کی رنگینوں سے بیزار ہوتی ہے ،نہ اسکی زندگی میں عیش زندگی کی کمی ہوتی ہے نہ ہی وہ اپنی زندگی سے تنگ اور نہ ہی وہ اپنے فیصلے میں لاچار و بے بس اور نہ ہی بعدِ زندگی اسے کسی عرص و لالچ۔وہ بس راہِ حق پہ ایک عظیم مقصد پہ قربان ہوتے ہیں۔ لمحہِ قربانی کے وقت نہ ان میں اداسی ہوتی ہے اور نہ ہی معمولات میں کوئی فرق بلکہ انکی روح میں اور زیادہ خوشی اور تازگی ہوتی ہے۔

یہ جد و جہد ہمیں جوڑے رکھے گی ،بحثیت قوم زندہ رکھے گی اور جو اس جد جہد سے فرار ہوں گئے یا اس جہد سے انکاری ہوں گئے یا اس جہد میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کریں گئے وہ بحثیت قوم اپنی مردگی قبول کریں گئے , ہمارا جنگ کا انتخاب ایک عظیم مقصد کے لئے ہے وہ عظیم مقصد بلوچ قوم کو انسانی معراج تک لے جانا ہے۔جو قدرت اور نیچر کے قانون سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قدرت کے قانون اٹل ہوتے ہیں تم انہیں کہیں بھی جیسا بھی مشاہدہ اور تجربہ کرو وہ ہر جگہ یکساں اصول کے ساتھ اسی طرح اپنا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح جنگ کا اصول بھی اٹل ہے جو ان اصولوں کے خلاف ہوتے ہیں اصل میں وہ جنگ کے خلاف ہوتے ہیں،کیونکہ جنگ کا قانون ہی جنگ ہے جو جنگ پہ یقین رکھتے ہیں وہ کہیں بھی ہوں جیسے بھی ہوں وہاں اپنی خواہشات اور مفادات سے اوپر رہ کر اس کی دفاع کرتے ہیں ۔اور جو لوگ مختلف ھالات احساسات ,جلدی اور بس اتفاق میں مختلف نظریے رکھتے ہوں وہ اصل میں منافق ہوتے ہیں،جو سچائی اور راستی کے بنیاد پہ اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کرتے بلکہ بد نیتی،اور مناقفقت کی بنیاد پہ اپنا رائے دیتے ہیں،اور یہ لوگ دشمن سے بھی بدتر ہوتے ہیں ۔بلوچ قوم کو اس بات پہ پورا یقین ہونا ہے کہ بلوچ کے نجات کا راستہ بس جنگ میں ہے،بس اب قوم کو اپنی سوچوں کی طاقت اس بات پہ رکھنا ہے کہ وہ جنگ میں کس طرح جدت اور شدت پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ جدت شدت دانشوروں کا جنگ کے لئے قلم ہوسکتا ہے،سیاست دانوں کا آزادی کے نقطہ پہ قوم کا موبلائزیشن اور مسلح جہد کاروں کا جنگ میں بہترین حکمت عملی۔

سب کا نقطہِ بنیاد جنگ ہو اور کس طرح اس جنگ کو منظم اور مضبوط کرنا ہے ساری طاقت اس میں ہو۔کیونکہ ہماری آزادی کا راستہ اسی جنگ سے ہوکر منزل تک پہنچتا ہے۔درمیانی راستہ بحثیت قوم ہماری تباہی اور موت ہوگئی ،اسی لئے اس نظریہ پہ کامل یقین کرکے ہر قربانی کے لئے خود کو تیار کرنا ہے۔دانشور طبقہ ہو یا سیاست دان یا بلوچ گوریلا جنگو سب کو بلوچ تضاد اور پاکستانی مکاری اور فساد کا مکمل علم اور آگہی ہو تاکہ وہ اپنے علم و آگہی سے اپنا اصل ہنر دیکھا سکیں اور موثر انداز میں عملا اسکا مظاہرہ کرسکیں۔اختلاف رکھنا اور اسکا اظہار کرنا ضروری اور مفید ہے لیکن اختلاف کس بنیاد اور کونسے نقطے پہ ہے اور اسے کس طرح موثر انداز میں نمٹا رہئے ہو اور کون سے حکمت علم و زانت کے بنیاد پہ اختلاف رکھ رہے ہو سب سے ضروی اور اہم یہی ہے۔اگر ہم ایسے ہی اپنی ذات میں گرے ہوئے ہوں ،تاریخ اور تاریخی عمل سے ناواقف ہوں،قوموں کے زوال اور انکے اسباب سے انجان ہوں،ظالم قبضہ گیر اور عالمی سامراجوں کے نیت اور انکے پالیسیوں سے بے خبر ہوں اور بس اپنی محدو سوچ و علم لیکر نام نہاد انسانیت ،روایات اور کلچر کا رٹا لگاتے رہے اور قومی فکر و قومی بیداری سے دور رہئے تو ہماری داستان تک بھی نہیں رہے گی داستانوں میں۔

عوامی جنگ اور طویل مسلح جد وجہد کی مخالفت کرنے والے جو امن اور انسانیت کی باتیں کرتے ہیں ،زیادہ زور اس بات پہ دیتے کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے اپنے قومی مقاصد حاصل کریں گے وہ یہ بات اچھی طرح ذہین نشین کرلیں وہ امن و انسانیت مکمل بلوچ قوم کی تباہی اور مکمل طور پہ بلوچ سرزمین پہ پاکستان اور سامرجی قوتوں کا یلغار ، قبضہ اور مکمل بلوچ کا اپنے سرزمین پہ انجان ،بیگانہ اور اجنبی بنانے کا پالیسی ہے۔ بلوچ قومی بقاہ اور قومی شناخت کو بچانے کے لئے بلوچ کے لئے ایک شدید عوامی اور طویل مسلح جنگ کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں،اس کے علاوہ جو بھی دوسرا تیسرا راستہ ہے وہ بحثیت قوم بس ہماری تباہی و بربادی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔