بلوچ قومی مسئلے کا حل کیا ہے؟ زمینی و تاریخی حقائق (حصہ اول ) ۔ رامین بلوچ

616

بلوچ قومی مسئلے کا حل کیا ہے؟ زمینی و تاریخی حقائق (حصہ اول )
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی مسئلہ دیومالائی افسانہ یا ”متھ“نہیں ہے، یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سبجیکٹ نہیں ہے کہ کسی کی سمجھ سے بالاتر ہو بلکہ اس کی جڑیں زمینی اور تاریخی ہیں، یہ کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں بلکہ بلوچ مملکت کے کروڑوں دیس واسیوں کی آزادی کا مسئلہ ہے ان کی خوشحال آزاد اور باوقار مستقبل کا مسئلہ ہے۔ 1947سے اب تک زیر سطح یا منظر عام پر جو تحریک خون سے ایندھن لے کر ایک اٹوٹ تسلسل کے ساتھ قربانیوں کے سمندر سے گزرتے ہوئے آج اس مقام تک پہنچاہے جہاں سے واپسی کے تمام راستے آزادی کی راہ تک رہے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی اس موقف میں ابہام اور پیچیدگی پیدا کررہاہو تو وہ منافقانہ اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چاہے وہ قبضہ گیر کے کیمپ سے ہے یا مقبوضہ قوم کے کسی فرد یا جماعت سے ہو، کوئی بھی ہواور سماج میں اس کی کوئی بھی حیثیت اور منصب ہو وہ تاریخ کے کٹہرے میں بلوچ قوم کو جواب دہ ہے۔

ہر قومی جہد کار کی طرح میرا بھی بلوچ نیشنلزم اور قومی آزادی کی جدوجہد پر غیر متزلزل یقین ہے کہ جہد آزادی کی کامیابی اور کامل فتح کے لے بلوچ قوم ایک نسل سے دوسرے نسل اور پھر تیسری نسل تک اپنے جانوں سے گزرکر جو سنگ میل عبور کررہے ہیں یقینا ایک وقت اور ایک عہد ایسا بھی ہوگا جہاں بلوچ آزاد اور خوشحالی کی زندگی بسر کررہی ہوگی، ایک غلام خطہ میں کھبی آزادی کا سر اٹھاتا ہوا پرچم ضرور بلند ہوگا یہاں ایک نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ قبضہ گیر ریاست کے ساتھ بلوچ قومی غلامی کو مضبوط کرنے میں وہ جماعتیں اور افرادبرابر کے شریک ہیں، جنہوں نے بلوچ قومی مسئلہ کو زمینی حقائق کے بر خلاف پیش کرکے جو تاریخی بے ایمانی کی وہ تاریخ کے احتساب سے بری الذمہ نہیں زیر نظر مضمون میں جو چیدہ چیدہ نکات ضبط قلم لائی گئی ہے جو بلوچ قومی مسئلہ کے حل کے حوالہ سے مختلف ادوار میں ریاست کی گمراہ کن پروپیگنڈے اور بلوچ کٹھ پتلی قوم پرستوں کے کردار و سیاست اور بیانیہ کے حوالہ سے ایک تنقیدی جائزہ ہے۔

میں اب تقریبا چالیس سال کا ہوچکا ہوں عمر کے اس حصہ تک پہنچتے ہوئے میر ا تعلق نہ صرف لٹریچر سے رہاہے بلکہ میں لکھتا اور پڑھتارہاہوں میرے چھوٹے سے کتب خانے میں بلوچ قومی آزادی اوردنیا بھر کے آزادی کی تحریکوں کے بارے میں کتابیں اور جدوجہد کے احوال، داستانیں واقعات میرے مطالعہ کا حصہ ہیں، میں دعوی نہیں کرتا کہ میں کوئی بڑا لکھاری یا دانشورہو ں یا مجھے قلم اور لکھنے پر اتنی گرفت ہے بس جو محسوس کرتاہوں یا جو زمین پر دیکھتاہوں وہی حقائق قلم کے سپرد کرتاہوں بغیر کسی مصلحت دباؤ یا گھٹن یا سنسر شپ کو خاطر میں لاکر اپنے خیالات الفاظ جملے پیراگراف اور بنتے ٹوٹتے ایک کالم کی شکل میں سامنے لاتاہوں۔

بیس سال سے زائد کاعرصہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے کئیں بلواسطہ اور اور کہیں بلاواسطہ جڑی رہی ہر وژنری ساتھی کی طرح نظریاتی شعوری اور فکری بلوغت کو پہنچتے ہوئے طویل وقت درکار ہوتاہے ارتقاء سے تبدیلی کے لے ایک بحر بیکران جدوجہد سے سامنا ہوتاہے میں جب سولہ سال کا تھا تو بی ایس او کے ممبر شپ میں رہ کر اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اس میں کوئی دو رائے نہیں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کا بلوچ قومی تحریک میں کردارنرسری یا مدر آرگنائزیشن کا ہے جو کیڈروں کو ایک ایک اور دو دو کرتے ہوئے جیتتے ہوئے ان کی تربیت اور زہن سازی کرتی ہے ان کی فکری اور سیاسی نشود نماء کرتی ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹنس آرگنائزیشن کو بھی شروع سے ایک آزاد و خودمختیار ادارہ کے طور پھلنے پھولنے کے
مواقع مسدود کردیئے گئے اس کی بڑی وجہ ریاست کا اس ادارہ کی نظریاتی قوت سے خوف تھا جو بی ایس او کے پلیٹ فارم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا بی ایس او کو پارلیمانی پارٹیوں کے لئے سٹپنی اور پاکٹ کا کردار ادا کرنے کے لئے گراؤنڈ تیار کیا گیا بلوچ نوجوانوں کو ان کی منزل اور اہداف سے ہٹانے کے لئے تقسیم کیا گیا نوجوانوں میں انتشار پیدا کیا گیا بظاہر بلوچ قوم پرستی کے نام پر بننے والے پاکستانی فیڈریشن کے دھارے میں شامل پارٹیوں کو ایک منظم ایجنڈا کے تحت یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ بی ایس او کو آزاد و خود مختیار ادارہ کے طورپررہنے دیینے کے بجائے اسے ان پارٹیوں کی جھنڈا برداری اور ان کے نعرے اور ان کے تھیسز کے لئے استعمال کیا گیا اور بی ایس اور کو بلوچ قومی آزادی کی راہ سے الگ کرنے کے لئے حتی الامکان کوشش کی گئی اور یہ فرسودہ سوچ آج بھی بی ایس اور کے مختلف دھڑوں کی شکل میں حاوی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قبضہ گیر ریاست اور بشمول کٹھ پتلی قوم پرست دونوں نے ہر دور میں بی ایس او کو نو آبادیاتی فارمولے کے تحت توڑا اور تقسیم کیا گیا اور یہاں تک تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے رائے عامہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ ریاست پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیر الثقافتی فیڈریشن یا ریاست ہے اور اسے بی ایس او کے بیانیہ میں شامل کیا گیا۔

معلوم تاریخ کے مطابق بی ایس او کی بنیاد 1962 میں جنرل ایوب خان کے زمانہ میں رکھی گئی اس وقت سیاسی جدوجہد پر مکمل بین تھی جس کی وجہ سے اس میں حکمت عملی کے تحت لفظ ایجوکیشنل کے اضافہ کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایاگیااس میں کوئی ابہام نہیں کہ بی ایس او کا بنیادی نصب العین حق خودارادیت یا دوسرے معنوں میں آزادی کا تھا لیکن اس وقت کے بی ایس او کے سنجیدہ قیادت ایک میکنزم کے تحت معروضی حالات کے پیش نظر قومی آزادی کی موقف کو درست حکمت کے تحت عارضی طور پر پس منظر میں رکھا تاکہ قابض ریاست ان کی سیاسی سر گرمیوں کے لئے فوری طور پر رکاوٹ پیدا نہ کرسکے اور انہیں بلا رکاوٹ سخت گیر لائحہ عمل کے لئے مناسب موقع مل سکے تاکہ وہ اس دورانیہ میں اس پلیٹ فارم کے زریعہ سے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو منظم و یکجاء کیا جاسکے بلکہ ان کی سیاسی و فکری و زہنی تربیت کرکے تنظیم کو ناقابل تسخیر قومی قوت کی بنیاد رکھا جائے ابتدائی چھ سالوں میں تنظیم کاری کا عمل صرف کراچی تک محدود رکھاگیا جب کہ باقی ماندہ بلوچ علاقوں کے نوجوان بی ایس او کے پروگرام لائحہ عمل سے اس قدر باخبر نہیں تھے کیونکہ تنظیمی سر گرمیاں صرف کراچی کے گرد نواح تک محدود تھے لیکن آئستہ آئستہ تنظیم کے ریکرومنٹ کادائرہ وسیع پیمانے پر آگے بڑھاتے ہوئے تنظیم کے مخلص باشعور اور سنجیدہ قیادت نے فیصلہ کیا کہ تنظیم کے پلیٹ فارم کو بلوچستان بھر میں منظم و مشترک کیا جائے تاکہ بلوچ نوجوانوں کی وسیع کھیپ اس پلیٹ فارم کا حصہ بنے اس سلسلے میں بی ایس ای اوکے قیادت نے مکران سٹوڈنس فیڈریشن کے نام سے قائم طلباء تنظیم کے ساتھ رابطہ سازی کا آغاز کرکے بلوچ مملکت کے کونے کونے میں بلوچ نوجوانوں کے ساتھ رابطہ کی س مثبت پیش قدمی اور نوجوانوں کی الگ الگ پلیٹ فارم سے کام کرنے حوالہ اشتراک و انضمام کی کوششین کی گئی جو نتیجہ خیز ثابت ہوئی جبکہ کے بعد چھ سال کی ان تھک اور مسلسل تنظیم کاری کے بعد26 نومبر1967 کو بی ایس او کے اولین کونسل سیشن میں تنظیم کا با ضابطہ نام بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن رکھ دیا گیا اور تنظیم کے منشور میں قومی حق خود ارادیت کی حصول کے لئے جدوجہدکا ایجنڈا نمایاں طور پر شامل کیا گیا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی ایس او بحیثیت ادارہ ایک طلباء تنظیم سے بڑھ کر بلوچ سماج میں ایک درسگاہ کا کردار ادا کرتے ہوئے بلوچ قوم دوستی کے نظریات کو ہر اول دستے کے طور پر ابھارنے کی کوشش کرکے بلوچ
نوجوانوں کی فکر ی اور نظریاتی معیار و طاقت میں اضافہ کا باعث بنی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بی ایس او کو ایک آزاد وخومختیار اور مضبوط ادارہ کے طورپر کام کرنے کے لئے ابتداء ہی سے مختلف چیلنجوں کا سامنارہا اپنے اولین کونسل سیشن کے بعد بی ایس او کی قیادت اختلافات کا شکار ہوئے اور بی ایس او پرو اور اینٹی سردار دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک گروپ نے اپنی الگ شناخت کو عوامی کے نام سے برقرار رکھا دونوں گروپوں کا جھکاہو الگ الگ پارلیمانی جماعتوں کی جانب تھا ایک گروپ نے نیشنل عوامی پارٹی کی حمایت کی اور دوسرا دھڑہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور کیچڑ اچھالی گئی المیہ یہ ہے کہ اس دوران بی ایس او کے بعض کیڈرزنظریاتی زوال پزیر ی کا شکارہوکر اپنی رائیں بدل ڈالیں اور ان میں سے کچھ قوم دوستی کی سیاست اور بی ایس او کے حلف نامہ کو روندھ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے لیکن 70 کے دہائی میں ایک دفعہ پھر تنظیم کو نئی اور تازہ دم قیادت میسر ہو اتنظیم کی روح اور اساس کو ایک نئی طاقت اس وقت ملی جب بی ایس او کے چیئر مین میر عبدالنبی بنگلزئی کے ہاتھوں میں آئی جو قیادت کو عمومی طور پر ایک فیشن سمجھنے کے بجائے بی ایس او کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کر کے ایک سخت گیر ڈسپلن اور مرکزیت کے ساتھ تنظیم سے فکری و نظریاتی ابہام کو ختم کرکے قومی آزادی کے حوالہ سے فیصلہ کن موقف اپنایا انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ نوجوانوں کو منظم و متحرک کیا یہ وہ دہائی تھے جب بھٹو نے بلوچستان میں فوجی جارحیت کا آغاز کیا اور مری بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنایا ہزاروں مری بلوچوں کا قتل عام کیا گیا بچے اور خواتین کو نشانہ بنا یا گیا مری علاقوں پر ہزاروں ٹن بارود گرائے گے اس پیمانے کی ماس کلنگ کے خلاف بی ایس او نے بھر پور احتجاج کیا جس کے بعد ریاست نے بی ایس او اور بلوچ آزادی پسند راہنماہوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جس سے بابائے بلوچ خیر بخش مری ہزاروں مری اور دیگر بلوچ دوستوں کے ہمراہداری میں جلاء وطنی اختیار کرکے افغانستان چلایا گیااور بی ایس او کے بعض راہنماء بھی ان کے ہمراہی میں جلاء وطن ہوگئے اور بعض زیر زمین رہ کر کمیوفلاج کے طور پر بلوچ نوجوانوں کو سخت ترین حالات میں منظم و یکجاء کئے۔   

جار ی ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔