میں نہیں مانتا ۔ شاھبیگ بلوچ

125

میں نہیں مانتا

تحریر: شاھبیگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

میں نہیں مانتا کہ پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں کا طبقہ کسی کے بہکاوے میں آکر اپنی زندگی کو خود موت کے حوالے کرتے ہوئے دشن پر پہاڑ بن کر ٹوٹتے ہیں۔

میں نہیں مانتا کہ درویش عرف باز مری جو اس جنگ کا طویل عرصہ سے حصہ ہوں، جنہوں نے اپنے قبیلہ سمیت پوری بلوچ قوم پر ہونے والی ریاستی ظلم و بربریت کو براہ راست دیکھا ہو، محسوس کیا ہو، اس درد و کربناکی میں زندگی گزاری ہو، انہیں کسی کی جادوگری نے اپنے بچوں، اپنے خاندان کو خدا حافظ کہتے ہوئے دشمن کے آلہ کار اور بلوچ سرزمین پر موت کی علامت بننے والے شفیق مینگل پر مہلک ترین حملہ کرتے ہوئے نظریہ آزادی پر اپنی زندگی قربان کرنے پر اکسایا ہو۔

میں نہیں مانتا کہ ریحان اسلم نے بارود سے لدے گاڑی کو چائینیز انجینیروں کے بس کے سامنے اس لئے دھماکے سے تباہ کردیا تھا کیونکہ اسے اس کے والد یا کسی اور نے برین واش کرتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ میں نہیں مانتا کہ ایک نوجوان جو علمی و شعوری صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک تنظیم کے اہم ترین کمانڈر کا فرزند ہونے کے باوجود بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا نہیں کسی اور کا انتخاب کیجئے۔

میں نہیں مانتا کہ پہاڑوں میں زندگی گزارنے والے جنگ کی شدت کو محسوس کرنے والے رازق، رئیس اور ازل کو کسی کے کرشماتی باتوں، افسانوں یا کہانیوں نے اس قدر جادو میں قید کردیا ہو کہ وہ روایتی گوریلہ جنگ کو چھوڑ کر، کراچی جیسے شہر میں جہاں ہر طرف کیمروں کی آنکھیں موجود ہوں اور سیکیورٹی سخت ترین ہو، اس شہر میں چینی قونصل خانہ میں گھس کر دشمن پر براہ راست حملہ آور ہوکر زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں نہیں مانتا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان حمل فتح بلوچ، اسد بلوچ، منصب بلوچ اور کچکول بلوچ جو خود لکھاری ہوں، شاعری کرتے ہوں، جنگ کا حصہ ہوں جنگ کو سمجھتے ہوں جنگ کی حکمت عملیوں اور ضروریات سے واقف اور آگاہ ہوں انہیں کوئی برین واش کرکے گوادر کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل جو ایک انتہائی حساس اور فل پروف سیکیورٹی زون میں واقع ہو، وہاں گھسنے کم از کم چوبیس گھنٹہ جنگ جاری رکھنے اور پھر ایک انتہائی اہم معرکہ کے بعد اپنی زندگیوں کو سرزمین پر قربان کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے پر قائل کرسکتے ہوں۔

میں نہیں مانتا کہ سلمان حمل عرف نوتک، تسلیم بلوچ عرف مسلم، سنگت شہزاد بلوچ عرف کوبرا اور سراج کنگر عرف یاگی کو کسی کمانڈر کی تحریر ؤ تقاریر یا کوئی افسانہ اس قدر قائل کرسکتا تھا کہ وہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ کراچی اسٹاک ایکسیچینج ایک انتہائی سخت ترین سیکیورٹی ایریا ہونے کے باوجود اس پر حملہ آور ہوکر نہ صرف اپنی زندگیاں مقصد اور نظریہ پر قربان کردیتے ہیں بلکہ وہ دشمن کی معیشت کو کاری ضرب لگانے سمیت چین کو بھی یہ پیغام پہچانے کا سبب بنتے ہیں کہ بلوچ سرزمین پر موجود نوجوان نہ صرف روایتی طرز جنگ سے دشمن پر گھیراؤ تنگ کرتے رہینگے بلکہ اب وہ اس طرح کہ انتہائی حملوں سے دشمن پاکستان اور چین کو بلوچستان سے بیدخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے۔

میں نہیں مانتا کہ سربلند جیسے ہونہار، بہادر اور سرزمین سے محبت کرنے والے نوجوان کو کسی نے بہلا پُھسلا کر یا کسی جنت کا خواب دکھا کر اپنی جسم پر بارود باند کر دشمن ریاست اور اسکے حواریوں پر حملہ آور ہوکر اپنی زندگی، اپنی جوانی، اپنی خوشیوں کو قربان کرنے پر اکسایا تھا۔

میں نہیں مانتا کہ پنجگور اور نوشکی میں پاکستانی فوج کے دو اہم اور مرکزی فوجی کیمپوں پر حملہ آور ہونے والے وطن کے شہزادوں بادِل بلوچ عرف ریاست، عزیز زہری عرف بارگ، انیل بلوچ عرف بالاچ، مراد آجو عرف بابا، یاسر نور عرف سیف، ابرھیم بلوچ عرف کبیر، دیدگ بہار عرف رؤف، بلال بلوچ عرف واحد، میرین جمالدینی عرف زگرین، جمال بلوچ عرف چاچا، حامد رحیم عرف زبیر، سمیع سمیر عرف شعیب، الیاس بلوچ عرف قادر، اسد واھگ عرف سبزو، ناصر امام عرف حمل، ضمیر بلوچ عرف فراز کہ ان کی صفحوں میں شاعر، لکھاری، تعلیم یافتہ، شعور یافتہ، جنگی اور سیاسی شعور سے لیس جنگجوؤں کو کسی نے اپنی قابو میں کرکے، ہپناٹائز کرکے ان سے ایک ایسا عمل کروایا جس کی مثال کم از کم بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ میں تو نہیں ملتی۔ ایک ایسا عمل جس نے ریاستی مشینری، فوج، سیاست دان، صحافیوں سمیت پاکستانی ریاست کے جرائم میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے والی چین کو بھی اچنبہ میں ڈال دیا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ بلوچ سرمچار دو مرکزی فوجی کیمپوں بیک وقت اس طرح کے شدید حملے کرسکتے ہیں اور تین روز تک جنگ جاری رکھنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ قریباً 190 فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرتے ہوئے املاک کو انتہائی نقصان پہنچاتے ہیں۔

میں نہیں مانتا کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ دو بچوں کی ماں، ایک خوشحال ؤ بہتر زندگی گزارنے والی شاری بلوچ کو کسی کی جادوگری، کسی کی سحرانگیزی نے ایک ایسے انتہائی راستے کا انتخاب کروایا ہوگا جس میں نہ صرف وہ پاکستان اور چین کو ایک واضح پیغام دے رہی تھیں بلوچستان کے فرزندان کے ہمراہ اب بلوچ دختران بھی عملی طور پر دشمن کا مقابلہ کرینگی بلکہ وہ ایک ایسا طریقہ کار اپنائی گیں، جس سے پاکستان اور چین کی نیندیں اڑجائینگی، بلکہ اس منزل میں وہ اپنی زندگی کو خیرآباد کہہ کر اپنے دو معصوم بچوں سے ہمیشہ کی خاطر جدا ہوجائینگی۔

میں نہیں مانتا کہ زندگی سے بھرپور، صحافتی علم سے آشنا، سمیعہ قلندرانی کو کسی ایک مخصوص واقعہ یا کسی کرشماتی لیڈر کی باتوں نے فلسفہ شاری ءُ ریحان پر کاربند ہوکر دشمن پر بمب باندھ کر حملہ آور ہونے پر مجبور کیا ہوگا۔

میں نہیں مانتا کہ ایک ایسے راستے کا انتخاب کہ جس میں آپ بذات خود موت کا انتخاب کرتے ہوئے ایک ایسا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں کہ جس کے نتائج جسکی کامیابی یا ناکامی جس کے اثرات سب کچھ آپ کی زندگی آپ کی ٹائمنگ اور آپ کے اقدام کے حاصل نتائج پر انحصار کرتا ہو۔ ایک ایسا عمل، ایک ایسا فیصلہ، ایک ایسا راستہ، ایک ایسی منزل قطع نظر اس کے نتائج ؤ حاصلات کہ اس عمل میں ملوث شخص کی موت یقینی ہوتی ہو۔ ایسا عمل اور فیصلہ کہ جس میں آپ کو سوچنے، سمجھنے، نظرثانی کرنے اور یہاں تک کہ اپنے فیصلہ سے پیچھے ہٹنے تک کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہو، پھر بھی اگر کوئی بلوچ فرزند یا دختر یہ فیصلہ لیکر اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہوں۔ ایسے کرداروں کو ایسے شعور یافتہ لوگوں کو ایسے وطن زادوں کو کوئی کمانڈر، کوئی تنظیم، کوئی بریگیڈ، کوئی گروہ اپنے ذاتی مفاد اور فائدہ کیلئے استعمال کرسکتا ہوگا۔

ہاں میں مانتا ہوں ان کرداروں پر جادوگری اثر کرتی ہے وہ جادوگری نہ کسی کمانڈر سے ہوتی ہے نہ ہی مخصوص ایجنڈہ سے بلکہ وہ جادوگری بلوچ سرزمین سے محبت، ایمانداری، وفاداری اور لگاؤ کی ہوتی ہے جس کے سحر میں گرفتار ہوکر اپنی زندگیوں کو فنا کرنے سے پہلے ذرا برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے ہوئے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے مجید بریگیڈ کے سرمچاران آج بلوچ تاریخ میں عظمتوں کا مینار بن چکے ہیں۔

ہاں میں مانتا ہوں ان کرداروں کو اگر کسی عمل نے اکسایا ہے تو وہ ہے ریاستی بربریت، ریاستی جبر، قبضہ گیریت اور استعماری پالیسیاں، بلوچ قومی وسائل کا استحصال، بلوچ قوم کے نوجوانوں، بزرگوں، بچوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں پر تشدد، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لعشیں، اجتماعی قبریں اور گزشتہ سات دہائیوں سے جاری بلوچ قوم کی نسل کشی نے اکسایا ہے کہ وہ اس قدر شعور یافتہ ہوں کہ دشمن پر پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑیں، دشمن کی خاطر بلوچ سرزمین کو اس قدر تنگ کردیں کہ بلوچستان سے انخلاء کے علاوہ دشمن کے پاس اور کوئی راستہ اور کوئی چارہ موجود نہ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔