لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری

154

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5094 دن ہوگئے، بارکونسل کے جنرل سیکریٹری چنگیز، حئی بلوچ، محمد امین مگسی ایڈوکیٹ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں خفیہ اداروں اور فوج کے سامنے سارے ادارے بے بس ہیں، چاہے پارلیمنٹ ہو عدلیہ ہو میڈیا ہو انتظامیہ یا دیگر ادارے ہوں۔ یہ قبضہ گیر کے ڈھانچے کا حصہ ہیں اور انہیں سہارا دینے کے لیے قوم دشمنی پر اترتے ہیں اس سے ان حالات میں جو دور بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں اور شہادت کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ خواتین اور مردوں کو جبری گمشدگی کے بعد زندانوں میں بند کر کے اذیتیں دی جارہی ہوں چھوٹے بچوں کو گولیوں سے نشانہ بنا رہے ہیں دانشوروں اور سیاسی ورکروں کو گولیوں سے بھوند رہے ہوں۔ خواتین کی بےحرمتی اور بلوچ ننگ و ناموس کی پامالی روز کا معمول بن چکا ہے بلوچ قوم کی باغیرت خواتین ریاستی درندگی اور عصمت دری کا شکار بن رہی ہیں۔ اجتماعی قبریں بھی منظرعام پر آرہی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ پیش آیا چار ماوں کے لخت جگر ریاستی فورسز کے مارٹر لوگوں کے نشانہ بنے پورے علاقے کی ننگ ناموس کی پامالی کی گئی۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کیا یہ اسلام کے قانون کے عین مطابق ہے کیا بلوچوں کی جان کی قیمت کوئی نہیں کیا ان کو یہ سب کچھ کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ کیا بلوچ عورتیں مسلمان نہیں جن کی ڈیتھ اسکوارڈ خفیہ اداروں کی کہنے پر بے حرمتی کی؟

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ یہ اتنے چالباز ہیں کہ سادہ لوح بلوچ دھوکہ کھاتے ہیں مگر اب انکی دال گلنے والی ہیں اب قوم باشعور ہو چکے ہیں۔ ان مخبروں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے کہ جو امن پسندوں کی گھروں کی نشاندہی کرتے ہیں اور جبری اغوا کرنے کے لئے انکے ساتھ چلتے ہیں یا کسی علاقے میں امن پسندوں کی اطلاع دیتے ہیں وہاں کا پورا نقشہ انہیں فراہم کرتے ہیں۔