عشق ۔ سارنگ بلوچ

275

عشق

تحریر: سارنگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے پنوں میں ایسی بہت سے شخصیات موجود ہیں جن کی قومی قربانیاں آج بھی پڑھے اور سنائے جاتے ہیں۔ مگر ان میں جنرل اسلم بلوچ اور یاسمین اسلم کا کہانی کچھ مختلف ہے جنہوں نے ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑے اپنے بیٹے کو گلے لگا کر وطن پر قربان کیا۔ جنرل اسلم بلوچ نے اپنی زندگی تو بلوچستان کی آزدی کے لئے قربان کی مگر، مگر بیٹے کو گلے لگا کر فدائی حملے کے لئے بھیجنا تاریخ میں جنرل کو ایک الگ مقام دیتی ہے۔

قومی قربانی کی علامت جنرل اسلم بلوچ پوری قوم کے لیے باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی اپنے لوگوں کے لیے وقف کیا تھا، اپنی آخری سانس تک پہاڑوں سے دشمن کا بے خوفی سے مقابلہ کیا۔ جنرل کی قربانی بہت مختلف تھی وہ دشمن کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر ہمیشہ تاریخ میں امر ہونے کے لئے اپنے ہاتھوں سے اُس بارود سے بھری گاڑی میں سوار کیا جس نے دشمن کے غرور کو مٹی میں ملا دیا، جنرل اسلم بلوچ کا نام تاریخ میں ہمیشہ ایک استاد، ایک مہربان اور جنرل کے نام سے یاد کیا جائے گا، جو جرات اور بہادری کی علامت ہے۔

جنرل اسلم بلوچ کی اہلیہ اور ریحان اسلم کی والدہ لمہ یاسمین اسلم کی اپنے وطن کے لیے بے پناہ محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔میرے الفاظ لمہ یاسمین کی اپنی مادر وطن سے عقیدت کی گہرائی کو بیاں کرنے میں ہمشیہ ناکام رہتے ہیں، ایک ماں جس کو نتائج معلوم ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر کہا “میں نے آپ کو وطن کے لئے قربان کیا” اور اُس نے اپنے بیٹے کا دشمن کو مٹانے کے فیصلے کی دل و جان سے حمایت کی۔ لمہ یاسمین کا اپنے قوم و گلزمین سے مہر ومحبت کسی دانشور و مصنف کے قلم سے بیاں نہیں ہوسکتی، لمہ ایک حوصلہ و بلوچ تاریخ میں ایک مثال ہیں جہنوں نے ایک بار کہا “میں اس گلزمین پر بہت ریحان قربان کر سکتی ہوں” جو اپنے قوم و وطن سے عشق کا عکاسی کرتی ہیں۔

ریحان جان کی قربانی نے بلوچ جدوجہد کی مشعل کو آگے بڑھایا اور اس جنگ کو ایک الگ موڑ پر پہنچایا۔ انتہائی بہادری کے ساتھ، اس نے دشمن کو مٹانے کے لئے خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریحان جان کے دشتار (منگیتر) اور جنرل و لمہ کی بہو سمعیہ قلندرانی بھی اپنے ریحانو سے جا ملی۔

زمین کی بیٹی سمو تپتی گرمی میں دشمن کو یہ بتانے پہنچی تھی کہ “آپ جنگ ہار چکے ہو” اور سینے میں لئے بارود کو کلچ دے کر دکھا گئی کہ بلوچ ایک بہادر قوم ہے جو کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اپنے آنے والے نسلوں کو خوشحال بلوچستان میں خوش دیکھانے چاہتی ہیں۔

لمہ یاسمین کا خواب آزاد بلوچستان ایک دن ضرور پورا ہوگا، اپنے شوہر اور بیٹے کی قربانی سمیت زندگی کے ذاتی نقصانات برداشت کرنے کے باوجود لمہ کا خواب و جذبہ اٹل ہے۔ لمہ یاسمین کی کہانی سننے کے لئے ہمت و جرت کی ضرورت ہے جو اس درد اس مہر و قربانی کو سن سکے برداشت کر سکے۔ جو مجھ جیسے لوگ اس کہانی کو نا لکھ سکتے ہیں نا سن سکتے ہیں اور نی ہی اس عشق کر سکتے۔

آخر میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جنرل اسلم بلوچ، یاسمین اسلم، ریحان اسلم اور سمعیہ ریحان کی کہانیاں و کردار محض الفاظ و سوچ سے بالاتر ہیں۔ یہ ناقابل بیاں سچائیاں ہیں جنہوں نے بلوچستان کے حقیقی تشخص کو تشکیل دیا ہے۔ ان کی قربانیاں انسانی فہم سے بالاتر ہیں اور یہ وہ عشق ہے جو ہمیں خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

جنرل اسلم بلوچ کا نام بہادری کی علامت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا، جب کہ یاسمین اسلم اپنی قوم کے لیے ماں کی محبت کی مظہر بن کر کھڑی رہینگی۔ ریحان اسلم و سمیہ ریحان کی قربانی، بلوچ جدوجہد کے پر کٹھن راستوں، بہادری، عشق، اور قومی شعور کی علامت ہے۔

لمہ(ماں) ، جنرل، ایڑ(بہن) و ایلم (بھائی) کے نام آزاد بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے لکھے جائیں گے اور یا نام و نظریہ ہمیشہ بلوچ قوم کی رہنمائی کریں گے اور بلوچ قوم ان زمین کی عاشقوں، وطن کے فدائی اور ان بے مثال حوصلوں کا ہمشہ قرضدار رہیگی۔

میں ان کرداروں کا طواف کرنا چاہوں گا، میں ان کے پاؤں کے مٹی کو سجدہ کرنا چاہوںگا میں ان کرداروں کو کا ایک مزار پر اور عمر اس کا طواف کرنا چاہوں گا، اس پر بانک کریمہ کا ایک شعر ہے، “کبھی وہ دن آئے گا کہ آزاد ہونگے ہم اپنی ہوگی زمیں اپنا ہوگا آسماں ہر برس شہیدوں کے مزاروں پر لگں گے میلے وطن پر مر مٹنے والوں کا یہی نام و نشاں ہوگا”

میں نے جنرل اور لمہ پر بہت سارے تحریر پڑھے، میں نے بہت سارے شاعری و گانے سنے جن میں لمہ و جنرل کا ذکر ہے، میں نے زمین کے مرید، استاد مرید کے شاعری پڑھے، میں نے ابصار و زیدی کے شاعری سنے و پڑھے، میں نے ابا قاضی، عمران فریق، آرپ وفا، سکی، رفیق و کئی شاعروں کے کے نظم، غزل و سنے لیکن میں اس بات کو کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرں گا کہ ان الفاظ نے، ان خیالات نے اور ان قلموں نے جنرل اور لمہ کے کے کردار کو بیاں کرنے میں انصاف نہیں کیا، اور نہ ہی شاید کوئی کر سکے گا۔

اور نہ ہی میرے پاس مزید لفظ ہیں کہ میں لکھ سکوں،نہ میں نے ایسے لفظ لکھے جو ان کرداروں کے ساتھ انصافی کر سکے اور ان کو بیاں کر سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔