زیارت واقعہ کے جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے افراد کے پہلی برسی کے موقع پر شہید شہزاد بلوچ کے گھر میں شہیداء کی یاد میں ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر شہدائے زیارت کے لئے قرآن خوانی بھی کی گئی اور ان کے ایصال ثواب کیلئے لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔
شہید شہزاد کے اہلخانہ، طلباء سمیت ان کے دیگر عزیز اقارب نے شرکت کی۔ مقررین نے ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آئے روز بلوچ قوم کے نوجوانوں کو ایسے جعلی مقابلوں میں شہید کر کے ویرانوں میں پھینکا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہزاد دھوار پولی ٹیکنک کالج سے حال ہی میں انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کر چکا تھا اور وہ اپنا ڈگری وصول کرنے کے غرض سے قلات سے کوئٹہ گیا تھا کہ ان کو 04 جون 2022 کو سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں اور ایف سی کے اہلکاروں نے موسیٰ کالونی سریاب روڈ کوئٹہ سے اس کے دیگر دوستوں سمیت جن میں ڈاکٹر مختار بلوچ، عتیق بلوچ، احمد بلوچ سمیت حراست کے بعد لاپتہ کر دیا گیا تھا۔
“لاپتہ ہونے کے بعد مختلف اوقات میں شہزاد کے موبائل نمبر سے 12 جون 2022 تک پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے اہلخانہ کو شہزاد کے نام سے میسج کیا جاتا رہا کہ میں پکنک منانے گیا ہوں اور کچھ دنوں میں واپس آتا ہوں لہٰذا گھر میں پرشان نہ رہیں، کچھ دن بعد شہزاد بلوچ کے بھائی کو کوئٹہ میں کسی دوست کے ذریعے معلومات فراہم ہوا کہ شہزاد کو ریاستی اداروں نے گزشتہ دنوں “ کوئٹہ سے لاپتہ کر دیا ہے تب شہزاد بلوچ کے اہلخانہ نے شہزاد بلوچ کا موبائل فون ٹریس کروایا تو لوکیشن کوئٹہ کینٹ بتا رہا تھا جس کے شواہد بھی اہل خانہ کے ساتھ موجود ہے۔
اہلخانہ نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہم نے کوئٹہ پریس کلب میں شہزاد کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور تھانہ بوسی منڈی کوئٹہ میں شہزاد بلوچ کی گمشدگی کی ایف آئی آر بھی درج کرائی، ٹوئٹر پر کمپین بھی چلائی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ سیول ڈیفنس میں بھی شہزاد کے گمشدگی کا رپورٹ بھی درج کیا گیا، 02 جولائی 2022 کو ہمیں سیول ڈیفنس کے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا بھی کہا گیا تھا مگر 15 جولائی 2022 کو پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے علاقے زیارت میں شہزاد بلوچ سمیت دیگر 9 لاپتہ افراد کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کر دیا اسی طرح شہزاد بلوچ سمیت دوسرے لاپتہ افراد بھی بلوچستان کے مختلف اضلاع سے مختلف اوقات میں سیکورٹی فورسز نے حراست کے بعد لاپتہ کر دیا تھا جن کے اہلخانہ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے ان کے بازیابی کیلئے مختلف اوقات میں احتجاج رکاڈ کئے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ زیارت کے بعد کٹ پتلی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے بھی سانحہ زیارت کے لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دیا مگر اس کمیٹی سے بھی ہمیں انصاف نہیں ملا اور رانا ثناء اللہ کے انصاف دلانے کے وعدے بھی وفا نہ ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر شہزاد بلوچ نے کوئی جرم کیا تھا تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا اور اگر اس پر کوئی جرم ثابت ہوتا تو اسے عدالت سزا سنا دیتی۔ کیا ریاست کی عدالتی نظام مسخ اور کمزور ہو چکی ہے کہ ریاست کو اپنے عدالتوں پر بھی بھروسہ نہیں۔
شہید شہزاد بلوچ کے لواحقین نے مزید کہا کہ اسی طرح ہماری والدہ بھی اپنے بیٹے کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملی جبکہ ہمارے خاندان کو ریاست کی جانب چھپ کرانے کیلئے فیملی کے دیگر افراد بھی لاپتہ کیے جارہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے تنظیموں اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیکہ ہمیں انصاف دلانے میں کردار ادا کریں اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو ہم آئندہ کے لائحہ عمل اعلان بعد میں کرینگے۔