عراق کے دارالحکومت بغداد میں قرآن کی بے حرمتی کے معاملے پر بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات سینکڑوں مظاہرین نے احتجاج کے دوران سویڈش سفارت خانے پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔
معاملے سے باخبر ایک ذرائع اور خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک عینی شاہد کے مطابق یہ احتجاج سویڈن میں قرآن کو ایک مرتبہ پھر نذر آتش کرنے کے خدشے کے خلاف ہوا۔
ذرائع نے زیادہ تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف یہ بتایا کہ سفارت خانے کے کسی بھی عملے کو نقصان نہیں پہنچا۔
بغداد میں سویڈش سفارت خانے کے حکام نے فوری تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
سویڈن کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو اے ایف پی کو بتایا کہ بغداد میں اس کا عملہ ’محفوظ‘ ہے۔
وزارت نے ایک ای میل میں کہا، ’ہم صورت حال سے آگاہ ہیں۔ ہمارے سفارت خانے کا عملہ (عراق میں) محفوظ ہے اور وزارت ان کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہے۔‘
سویڈن میں چند ہفتوں کے دوران قرآن کو نذر آتش کرنے کے دوسرے منصوبے کے خلاف جمعرات کو ہونے والے مظاہرے کی کال مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے دی تھی۔
سویڈش خبر رساں ادارے ٹی ٹی نے بدھ کو خبر دی کہ سویڈش پولیس نے جمعرات کو سٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے باہر ایک عوامی جلسے کی درخواست منظور کی۔
ٹی ٹی کی رپورٹ کے مطابق درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار قرآن اور عراقی پرچم جلانا چاہتا ہے۔
ٹی ٹی کے مطابق مظاہرے میں دو افراد شرکت کے لیے تیار تھے، ان میں سے ایک وہی شخص تھا جس نے جون میں سٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کو آگ لگائی تھی۔
ٹیلی گرام گروپ ون بغداد میں پوسٹ کی جانے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بدھ کی رات ایک بجے کے قریب لوگ سفارت خانے کے ارد گرد جمع ہوئے اور مقتدیٰ الصدر کے حق میں نعرے لگائے اور تقریباً ایک گھنٹے بعد سفارت خانے کے احاطے پر دھاوا بول دیا۔
بعد ازاں ویڈیوز میں سفارت خانے کے احاطے کی ایک عمارت سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ روئٹرز آزادانہ طور پر ان ویڈیوز کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکا۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حملے کے وقت سفارت خانے کے اندر کوئی موجود تھا یا نہیں۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں اور سٹاک ہوم میں ایک عراقی شخص کی جانب سے قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے بعد مقتدیٰ الصدر نے سویڈن کے خلاف احتجاج میں اس کے سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سویڈش پولیس نے اس شخص پر ایک نسل یا قومی گروپ کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
قرآن جلانے کے بعد بغداد میں سویڈش سفارت خانے کے باہر دو بڑے مظاہرے ہوئے، ایک موقعے پر مظاہرین نے سفارت خانے کے احاطے میں توڑ پھوڑ کی۔
پاکستان، عراق، ترکی، متحدہ عرب امارات، اردن اور مراکش سمیت متعدد مسلم ممالک کی حکومتوں نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور عراق نے اس شخص کی حوالگی کا مطالبہ کیا تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔
امریکہ نے بھی اس کی مذمت کی ہے لیکن یہ بھی کہا کہ سویڈن کی جانب سے اجازت نامے کے اجرا سے اظہار رائے کی آزادی کی حمایت ہوتی ہے اور یہ اس اقدام کی توثیق نہیں۔