انصاف کی لڑائی، خضدار یونیورسٹی کے طلباء کا احتجاج اور گرفتاری – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

411

انصاف کی لڑائی
خضدار یونیورسٹی کے طلباء کا احتجاج اور گرفتاری

ٹی بی پی فیچر رپورٹ

خضدار یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں منگل کے دن کشیده صورتحال اُس وقت پیدا ہوئی، جب پولیس سمیت فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں نے یونیورسٹی کیمپس کو گھیرے میں لے کر متعدد طلباء مظاہرین کو گرفتار کیا، جو اپنے شکایت کو مؤثر آواز فراہم کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔

یونیورسٹی میں موجود طلباء گروپ گرینڈ اسٹوڈنٹس الائنس(BUETK)نے منگل کے روز امتحانات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ امتحانات کنٹرولر کو ہٹانے پر اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔ کنٹرولر پر یونیورسٹی کیمپس میں طلباء اور بالخصوص طلبات کو بلیک میل کرنے کا الزام تھا۔ طلباء کی ایک خاص مجمع احتجاج کیلئے اکٹھا ہوئی۔ جنہوں نے کنٹرولر کی برطرفی، کیمپس اور ہاسٹلز میں غير ضروری نگران کیمروں کو ہٹانے، اسکالرشپس کی بحالی، طلباء اجتماعات پر سے پابندی ہٹانے، اور ٹیوشن فیس میں کمی کا مطالبہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے احتجاج کرنے والے طلباء کو منتشر کرنے کا مطالبہ کیا۔ پولیس اور ایف سی کی متعدد گاڑیوں نے یونیورسٹی کا گھیراؤ کیا جس کے نتیجے میں متعدد طلباء کو گرفتار کیا گیا، جن سے بدتمیزی کی گئی، زبردستی گاڑیوں میں بٹھا کر لے جایا گیا۔  ابھی تک گرفتار طلبہ کی صورتحال غیر واضح ہے۔

رات گئے طلباء اور یونیورسٹی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم طلبہ نے اپنے ساتھی طلبہ کی رہائی تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔

یاد رہے کہ طلبہ نے ایک ماہ قبل بڑے پیمانے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جہاں باقی مطالبات سمیت انہوں نے کنٹرولر امتحانات کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا، طلبہ نے کنٹرولر پر بدعنوانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ تب احتجاج اس وقت ختم ہوا جب یونیورسٹی نے ایک ماہ کے اندر کنٹرولر امتحانات کو عہدے سے برطرف کرنے کا وعدہ کیا۔

بدقسمتی سے طلبہ کے مطالبات پورا ہوئے بغیر ماہ گزر گیا۔ کنٹرولر امتحانات جس کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا تھا اب بھی یونیورسٹی کے فائنل امتحانات کی نگرانی کررہے ہیں۔ دھوکا دہی اور مایوسی کے احساس کو لیکر طلبہ نے پھر احتجاج کا راستہ اپنایا لیکن اس بار انہیں گرفتاریوں اور قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔

مختلف تنظیموں نے بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پرامن مظاہرین کی غیرقانونی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ جب طلبہ کو انکے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے تو انکا واحد راستہ احتجاج کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔

ایک اور طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) نے BUETK میں طلبہ مظاہرین کی گرفتاری کا شدید مذمت کیا۔  تنظیم نے پرامن طلباء کے خلاف طاقت کے بے تحاشہ استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، اور بلوچستان کی جامعات میں بلیک میلنگ، تشدد اور غیر قانونی گرفتاریوں کے پھیلاؤ کو اجاگر کرنے کا کوشش کیا۔

بساک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی جامعات بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں ادارے تعلیمی سال کے دوران بیشتر مدت تک بند رہتے ہیں۔ طلباء اور اساتذہ اپنے جائز مطالبات کو لیکر ہمیشہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں لیکن ان کی التجا پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ان کا کہنا تھا کے بات چیت اور گفت و شنید کے بجائے صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ طاقت کے استعمال کا سہارا لیتے ہیں۔

بساک نے بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے تمام جائز مطالبات کی منظوری تک اپنی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج بنیادی حق ہے اور طاقت کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہونے والا واقعہ کوئی الگ واقعہ نہیں ہے، اسی طرح کے واقعات دیگر جامعات میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ خاص طور ستمبر 2019 کو یونیورسٹی آف بلوچستان میں بھی اسی نوعیت کا معاملہ پیش آیا، جہاں یونیورسٹی انتظامیہ کے کچھ اہلکاروں نے  مجبور طلباء کی تصویر اور ویڈیوز بنائے تاکہ انہیں بلیک میل کیا جا سکے۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر غم اور غصے کو جنم دیا اور بلوچستان یونیورسٹی میں موجود بدعنوانی اور بلیک میلنگ کے کلچر کو بےنقاب کردیا۔

بلوچستان کے جامعات اکثر چھاؤنیوں سے ملتے جلتے ہیں۔ جہاں کیمپس کے اندر اور اس کے باہر فرنٹیئر کور کی گاڑیاں گشت کرتے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان یونیورسٹی جو اپنے میں گیٹس اور کیمپس کے اندر ایف سی اہلکاروں کی موجودگی سے مشہور ہے۔ طلباء اور دیگر لوگوں کو یونیورسٹی میں داخل ہونے پر کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، انہیں نہ صرف اسٹوڈنٹ کارڈ بلکہ شناختی کارڈز پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات طلباء کو سیکورٹی فورسز کے ذریعے ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مزید برآں بیرونی قوتیں یونیورسٹی معاملات میں نمایاں طور پر مداخلت کرتی ہیں اور یہاں تک کہ کیمپس اور ہاسٹلز میں متعدد طلباء کو جبری گمشدگی کا شکار بنا چکے ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ یاد رہے ایسے موقع جہاں انڈیا اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچز ہوتے ہیں تو ساتھ میں بڑی تعداد پر سیکیورٹی فورسز کو بھی یونیورسٹی کے باہر تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ ردعمل ستمبر 2022 میں ایشیا کپ کے فائنل کرکٹ میچ میں سری لنکا کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کے بعد طلباء کی پرجوش تقریبات سے پیدا ہوا، جس نے سیکیورٹی فورسز کو مشتعل کردیا اور کوئٹہ میں درجنوں طلباء کو گرفتار کرلیا گیا۔

بلوچستان میں طلباء کی زندگی مشکلات سے دو چار ہے۔ طلباء اور اساتذہ کرام کی احتجاج سے جامعات اکثر بندش کا شکار رہتے ہیں جہاں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ معمولی مسائل پر یونیورسٹی انتظامیہ فرنٹیئر کور کو طلب کرتی ہے جو ایک خطرناک رجحان ہے اور بلوچستان میں طاقت کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ صورتحال بدستور کشیدہ ہوتا جارہا ہے جہاں طلباء سیکیورٹی فورسز کی موجودگی کے بغیر کرکٹ میچ تک بھی نہیں دیکھ سکتے۔